افغانستان کے صدر اشرف غنی کے دورہ پاکستان کے نتیجے میں دہشت گردی کے خاتمے اور سیاسی، سفارتی، اقتصادی اور تجارتی تعلقات کے فروغ کے بارے میں دونوں ملکوں کے مابین جن امور پر اتفاق رائے ہوا ہے وہ یقیناً خوش آئند ہے کیونکہ ہمارے اس برادر اسلامی ملک کے ساتھ مراسم پر ماضی میں تلخی اور کشیدگی کے سائے منڈلاتے رہے ہیں لیکن خوشگوار حیرت پیدا کرنے والے بعض اہم معاملات بھی سامنے آئے ہیں۔ علاقائی حالات پر گہری نظر رکھنے والوں اور پاک افغان تعلقات کا گہرا ادراک رکھنے والے باشعور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دونوں پڑوسی مملکتوں کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی بھی افغان حکومت نے پاکستان سے مذاکرات کے موقع پر ان دو امور کا تذکرہ نہیں کیا جو گزشتہ 67 سال سے باہمی تعلقات میں زہر گھولتے رہے ہیں اور انہیں امور کے باعث اکثر بیشتر آپس میں کشیدگی اور تلخیاں پیدا ہوتی رہیں۔ کیا ہم اس بات کو فراموش کر سکتے ہیں کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد ایک جانب تو ہمارے اس پڑوسی ملک نے اقوام متحدہ میں ہمارے نوآزاد وطن کو عالمی برادری کا رکن بنانے کی قرارداد کے خلاف ووٹ دیا جو کہ واحد مخالف ووٹ تھا جبکہ ہمارے دوسرے پڑوسی ملک ایران کو شرف حاصل ہے کہ وہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی شمولیت کی حمایت کرنے والا پہلا ملک تھا۔ بہرحال وہ دور گزر گیا جب ہمارے درمیان باہمی معاملات پر معمولی کشیدگی کا نتیجہ افغانستان کے ساتھ اس قسم کی غلط فہمیوں کا باعث بنا۔ بعد ازاں کئی دہائیوں تک سیاسی و سفارتی سطح پر پاک افغان تعلقات کبھی خوشگوار نہ رہ سکے کیونکہ افغان قیادت کا دعویٰ تھا کہ برٹش انڈیا کی حکومت نے برِعظیم کو آزادی دلاتے وقت شمال مغربی سرحدی صوبے کا (یعنی آج کا خیبر پی کے) تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے آزاد اور خود مختار پاکستان کے ساتھ الحاق ناجائز طور پر کیا تھا۔ اس مسئلے کے دو پہلو ہیں ایک تو یہ کہ صوبہ سرحد اور افغانستان کے درمیان مستقل بارڈر بنانے کے لئے ایک لکیر کھینچی گئی جسے ڈیورنڈ لائن کا نام دیا گیا کیونکہ علاقے میں سرحدوں کے تعین کے لئے تشکیل کردہ کمیٹی کا سربراہ برطانوی سیاستدان مائیکل ڈیورنڈ ہی تھا جس نے برطانوی ہند اور افغانستان کے مابین کئی عشروں کی سرحدی کشیدگی ختم کرنے کے لئے اپنا فیصلہ دیا۔
اس بات کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں کہ اس دور کے افغان حکمران شاہ ظاہر شاہ ڈیورنڈ لائن کے تحت سرحدوں کے تعین کے قائل نہیں تھے اور اسے اپنے ملک کے ساتھ ناانصافی قرار دیتے تھے حالانکہ پوری بین الاقوامی برادری نے عالمی ضابطوں اور حق و انصاف کے جغرافیائی اصولوں کے مطابق قرار دیا تھا۔ شاید ظاہر شاہ کے اس خبثِ باطن ہی کے نتیجے میں ان کی حکومت نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی شمولیت کی مخالفت کی۔ ظاہر شاہ کے حکمران ٹولے نے اپنے ناجائز دعوے کو تقویت دینے کے لئے پڑوسی ملک پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر شرانگیز پراپیگنڈا شروع کر دیا اور مطالبہ کیا کہ ڈیورنڈ لائن کی لکیر کو مٹا کر افغان سرحد کو دریائے اٹک تک لایا جائے تاہم اس پالیسی کو بین الاقوامی سطح پر کوئی پذیرائی نہ مل سکی اور صرف بھارت کے بعض کٹر پاکستان مخالف سیاسی حلقوں نے ابتدائی دور میں لغو اور بے بنیاد افغان دعوے کی حمایت کی جو بعد ازاں اپنی موت آپ مر گئی۔
زیر تذکرہ دور میں افغان قوم کو جمہوری نظام کئی دہائیوں تک میسر نہ آ سکا اور حکمرانی کا تاج ظاہر شاہ کے سر سجا رہا۔ ان کی بادشاہت اور اس کے ساتھ منسلک اعلیٰ ترین عہدے اپنے خاندان ہی تک محدود رہے اور بادشاہ کا سب سے بڑا سہارا ان کے برادر نسبتی سردار داﺅد خان تھے جن کے پاس وزارتِ عظمیٰ اور آرمی چیف دونوں عہدے رہے لہٰذا ہر لحاظ سے افغان قوم پر آمریت ہی کے بھیانک سائے چھائے رہے۔
ظاہر شاہ اور اس کے حکمران ٹولے نے اپنے ہمسائے پاکستان کے ساتھ ناجائز چھیڑ چھاڑ کا ایک اور بہانہ بھی تراش رکھا تھا اور وہ یہ کہ مشہور کر دیا کہ چونکہ وہ ڈیورنڈ لائن کو جائز سرحد تسلیم نہیں کرتے لہٰذا صوبہ سرحد کو پختونوں کی بھاری اکثریتی آبادی کے باعث ”پختونستان“ قرار دیا جائے۔ 1950ءاور 60ءکے عشروں میں افغانستان کے قومی دن پر بڑی شان و شوکت سے جشنِ کابل منایا جاتا تھا جس میں شرکت کے لئے متعدد عالمی شخصیات اور حکومت نمائندوں کو بھی مدعو کیا جاتا لیکن اس تفریحی موقع کو بھی پختونستان کے سٹنٹ کی تشہیر کا ذریعہ بنانے کی کوشیں کی جاتیں تاہم بین الاقوامی برادری نے بھی اس سٹنٹ کو مسترد کر دیا لیکن خود ظاہر شاہ نے پورے عہد آمریت میں اس ”سٹنٹ“ کی تشہیر کے لئے کوئی کسر نہ چھوڑی تاآنکہ 1970ءکی دہائی میں خود سردار داﺅد نے اپنے برادر نسبتی ہی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا۔
حالیہ پاک افغان مذاکرات کا انتہائی خوشگوار پہلو یہ ہے کہ صدر اشرف غنی اور ان کے وفد کے دیگر ارکان میں سے کسی بھی شخصیت نے پختونستان سٹنٹ یا ڈیورنڈ لائن کے نام نہاد مسائل نہ صرف اٹھائے نہیں بلکہ معمولی سا تذکرہ بھی نہیں کیا اور صرف باہمی اعتماد کی بحالی، دہشت گردی کا قلع قمع کرنے اور علاقائی سلامتی کو تقویت دینے ہی کے منصوبوں کے لئے مشترکہ کاوشوں پر اتفاق کیا۔ خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ دونوں سربراہوں نے اسلام آباد مذاکرات میں کھل کر یہ بات تسلیم کی کہ دہشت گردی کا خطرہ نہ صرف دونوں ممالک کو لاحق ہے بلکہ دہشت گردوں اور تخریب کاروں کی سرکوبی میں کامیابی کا حصول بھی مشترکہ کوششوں ہی سے ممکن ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ دونوں برادر ملکوں کے فوجی سربراہوں کے مابین بھی پہلی مرتبہ مکمل خلوص، یکجہتی اور سنجیدگی سے دہشت گردی کے مسئلے پر مذاکرات ہوئے اور افغان حکومت نے ماضی کی تلخ یادوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے باہمی اخوت اور محبت، امن و سلامتی اور علاقائی استحکام کے لئے مضبوط ترین بنیاد رکھ دی۔