مقامی معیشت کیلئے مقامی وسائل

پاکستان ایک جاندار اور نمو پانے والی معیشت رکھنے والا ملک ہے۔ دنیا میں چھٹی بڑی آبادی اور چھٹی بڑی ٹیکسٹائل انڈسٹری یہاں ہے اور یہ کاٹن یارن برآمد کرنیوالا دنیا میں چوتھا بڑا ملک ہے۔ انسانی وسائل کے حوالے سے دنیا کے چند بہترین ملکوں میں سے ایک ہے۔ پاکستانی کارکنوں اور مینجرز کی دنیا بھر میں مانگ ہے۔ اس سب کا نتیجہ ہے کہ قیام پاکستان کے گزشتہ 68 برسوں میں پاکستان کی اوسط جی ڈی پی کی گروتھ شرح 5% رہی جو کچھ زیادہ بڑی نہیں۔
پاکستان کی زراعت بھی دنیا میں بہترین ہے۔ تقسیم سے قبل پاکستان کا پنجاب والا خطہ پورے برصغیر کو خوراک فراہم کرتا تھا۔ تاریخ کے ایک بدترین سیلاب کے دوران بھی پاکستان نے حیرت انگیز طور پر اپنی فاضل گندم اور چاول برآمد کیے کپاس کی مانگ اور طلب میں اضافہ کے باعث اسکی قیمتیں دوسری اجناس کی نسبت 100 فیصد سے بھی زیادہ بڑھانی پڑیں۔ جس سے معیشت یا مخصوص خوردہ فروش کے کاروبار میں بہتری آئی اور سٹاک ایکس چینجوں میں ماضی کی نسبت کہیں زیادہ اونچے نتائج سامنے آئے۔
پاکستان کو قدرت نے تیل، گیس، کوئلے، تانبے، چاندی اور لوہے جیسی قیمتی معدنیات عطا کر رکھی ہیں۔ معدنی کانوں کی گو ابھی اچھان بین نہیں ہوئی۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان میں موجود قدرتی ذخائر اتنے ہیں کہ مقامی ضروریات پوری کرلینے کے بعد انہیں برآمد بھی کیا جاسکتا ہے۔اس وقت ملک کے پاس سب سے زیادہ 20 بلین امریکی ڈالر کا زر مبادلہ موجود ہے اور ملک میں ترسیلات زر کی شرح بھی انتہائی بلند ہے۔ جو اوسطاً 1.5 بلین امریکی ڈالر ماہانہ ہے۔ ملک کے پاس اب فاضل کرنٹ اکائونٹ ہیں۔
برآمدت 25 بلین امریکی ڈالر کی سطح پر ہیں اور 41 بلین امریکی ڈالر کی سطح تک بڑھاتی جائیں گی جو لمحہ فکریہ ہے بالخصوص اس صورت میں جب بہت کچھ مقامی طور پر تیار کروایا جاسکتا اور کیا جانا چاہئے۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کسی نہ کسی صورت لبرلائزیشن، ڈی ریگولرائزیشن اور پرائیوٹائزیشن کے خیالی خطرات اور توہمات میں جکڑا ہوا ہے۔
اس پر مستزاد ترقی یافتہ دنیا کا سحر اور آئی ایف آئی کے زیر اثر ادارے اور پھر بند مارکیٹیں ہیں جسے یورپی یونین اور نیفتا (Nafta) جو فری ٹریڈ کو محدود کرتے ہیں۔ خود امریکہ ایک بند مارکیٹ ہے۔ جب کسی درآمدات میں کہیں اضافہ ہوتا ہے تو ٹیرف پروٹیکشن کے نفاذ سے مارکیٹ تک رسائی کے آگے بند باندھ دیا جاتا ہے۔ دنیا کو بالعموم اور پاکستان کو بالخصوص اس طرح امریکی اور یورپی منڈیوں تک رسائی نہیں دی جاتی اور ان میں دوسروں کے ساتھ پاکستانی ٹیکسٹائل کو 4 برس تک مارکیٹوں میں داخلے کیلئے انتظار کی طویل قطار لگا دیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف امریکہ، یورپی یونین چین اور دنیا بھر سے درآمدات کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری رہتا ہے جو کبھی سمگلنگ اور کبھی انڈر انوائیسنگ کی شکل میں ہوتی ہے۔ اس طرح کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس سے بچنے کے حربے استعمال ہوتے ہیں۔
اسکے برعکس پاکستان کیلئے بھارت کی کلاسیک مثال موجود ہے جہاں پنڈت نہرو کے زمانے سے ، جو کچھ بھی بھارت میں پیدا ہوتا ہے، اسے ٹیرف یا نان ٹیرف رکاوٹوں کے نام کی آڑ میں در آمد نہیں کیا جاسکتا، لیکن جب بھارت کی اکانومی عالمی سطح پر مسابقت کے قابل ہوگئی تو من موہن سنگھ نے فنانس منسٹر کی حیثیت سے اپنی اکانومی کو دنیا کیلئے کھولنا شروع کیا۔ ملائیشیا نے خود اپنے ذرائع اور وسائل پر بھروسہ کر کے آئی ایف آئی کی امداد قبول کرنے سے انکار کیا۔ یہ دوسرا ماڈل ملک ہے جس کا عالمی طاقتوں کی امداد پر انحصار نہیں۔ پاکستان بھی اس ماڈل کو اپنا سکتا ہے۔
آئی ایف آئیز سے ملنے والی ایڈ، قرضے اور کریڈٹ کو غلط طور پر امداد کا نام دیا گیا ہے۔ امداد لینے والے اکثر ملک اور پاکستان اس طرح کی امداد، قرضے اور کریڈٹ بنیادی طور پر زیادہ اہم اور ضروری سوشیو فزیکل انفراسٹرکچر، کے بجائے اجناس کیلئے اور دئیے جاتے ہیں۔ امداد پانے والے ملک اس امر کے پابند ہوتے ہیں کہ وہ اپنی ضروریات کی مشینری، پرزے اور خام مال امداد دینے والے ملک کے قواعد و ضوابط کے مطابق طے شدہ شرائط کے مطابق در آمد کریں۔ اس طرح کی امداد، قرضے اور کریڈٹ کنسل ٹینٹس کے ذریعے جاری ہونے سے مشروط ہیں جو فیس کی مدد میں ملنے والی امداد کا ایک بڑا حصہ لے جاتے ہیں جبکہ امداد لینے والے ملک کیلئے اس امداد کا بہت کم حصہ باقی بچتا ہے اور اسے مستقبل میں قرضے کی ادائیگی اور غیر ملکی زرمبادلہ کے حصول میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
اس پر ستم بالائے ستم کہ مقامی سرمایہ کاری اور پروڈکشن اور برآمدات کی قیمت پر ہر طرح کی اشیاء کی درآمدات کی کھلی چھوٹ دیکر امداد لینے والے ملک کو امداد کے حقیقی فوائد اور ثمرات سمیٹنے سے بھی محروم کردیا جاتا ہے۔ اسی کا نام گلوبل آئزیشن ہے۔
آئی ایم ایف کے ایک سابق ایم ڈی مسٹر ڈومینیک کاہن کے بقول گلوبل آئزیشن بے روزگاری، معاشرتی تعلقات میں بگاڑ اور سیاسی عدم استحکام کا ایک ایسا زہریلا ملغوبہ ہے جس کے منفی اثرات کم آمدنی والے طبقے پر مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اس سے 10 فیصد غریب افراد کے حصے میں قومی آمدن کا صرف چار فیصد آتا ہے جبکہ 10 فیصد اشرافیہ اس کا 27 فیصد ہڑپ کر جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان فر ی اکانومی کے نام پر سمگلنگ، انڈر انوائیسنگ اور ٹیکس چوری کرنیوالوں کیلئے بڑا سازگار رہا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور ورلڈ بنک کی ایک حالیہ رپورٹ کیمطابق ملکی اکانومی کا 57 فیصد ٹیکس کے بغیر ہے۔ ملک کے مجموعی ریونیو کا حجم 2.5 کھرب کے برابر ہے۔ اگر یہ 57 فیصد ٹیکس کے بغیر والا حصہ بھی ٹیکس نیٹ میں آجائے تو اسی سے مجموعی ریونیو کا حجم 4.0 کھرب کے قریب پہنچ جائے۔ اس میں امداد، قرضے اور کریڈٹ کی مد میں ملنے والی رقم 0.38 کھرب سے زیادہ ہے۔
پاکستان کو خارجہ پالیسی سے لیکر اپنی اکنامک اور سوشل حکمت عملی بارے سوچنا ہوگا اگر تمام وسائل اکٹھے کرکے احتیاط سے کام میں لائے جائیں اور ہوشیاری سے عمل درآمد ہو تو پاکستان کی امداد دینے والے ملکوں کی محتاجی ختم ہو جائے اور اسے معاشی، سیاسی اور اقتصادی آزادی مل جائے۔ اس سے ایک طرف جہاں سرمایہ کاری، پیداوار، برآمدت کی حوصلہ افزائی ہوگی وہاں دوسری طرف عوام کیلئے ترقی اور روزگار کے مواقع بھی پیدا ہونگے اور ان میں اپنی ذات پر اعتماد پیدا ہوگا۔
اپنے وسائل کے کماحقہ استعمال سے دنیا میں سابقت کے راستے کھلیں گے اور یوں عالمی منڈیوں میں اپنی ترجیحات کے ساتھ داخل ہوں گے اپنی ذات پر اعتماد بحال کرنے کا تیر بہدف نسخہ مقامی معیشت کیلئے مقامی وسائل ہیں۔ غیر ملکی امداد اور آئی ایم ایف کے پروگراموں پر تکیہ کرنانہیں۔
اس وقت غیر ملکی قرضے واپس نہ کرنے کے باعث ملکی قرضے تکلیف دہ حد تک 17 کھرب تک پہنچ چکے ہیں جو آٹھ سال قبل 4.7 کھرب تھے ۔ اب تو امداد دینے والے ملکوں نے بھی یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ امداد لینے والے ملک بشمول پاکستان کو پہلے خود اپنے مقامی وسائل پر انحصار کرنا چاہئے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر ہمیں خود مختاری چاہئے اور اپنی قسمت کا خود مالک بننا ہے۔ تو اپنے ہاں ٹیکس کے نظام کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ان تمام امور پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔
پاکستان کی پالیسیاں آزادانہ اور اپنے قومی مفادات کے تابع ہونی چاہیں۔ ورلڈ بنک کے سابق صدر مسٹر وولفن سون نے بڑے پتے کی بات کی ہے۔ مسٹر وولفن کا کہنا ہے کہ روز افزوں پھیلتی مایوس، بد دلی اور زوال پذیر حالات نے لوگوں کے دلوں میں آس امیدوں کے چراغ بجھادئیے ہیں۔ ہمیں اب مقامی شراکت داری، اونر شپ اور اشتراک کار کی ضرورت ہے۔ وہ دن گزر گئے جب پسماندہ ملکوں کی ترقی کے امور واشنگٹن اور مغربی ملکوں کے دارالحکومتوں میں بند دروازوں کے پیچھے انجام پاتے تھے۔گلوبل آئزیشن کی اصطلاح اب مقامی معیشت، مقامی وسائل ہے، ماضی والا زہریلا ملغوبہ نہیں۔
مائیکرو اکنامک استحکام سے پاکستانی معیشت کو سہارا اور مددملے گی۔ معیشت میں مقامی وسائل کی رسائی سے لوگوں کو روزگار ملے گا اور روٹی، کپڑا مکان میسر ہوگا۔ غیر ملکی امداد خواہ کسی قیمت پر ہو، ہماری قومی خود مختاری اور غیرت پر بدنما دھبہ ہے۔ سو آئیے کہ…ع
آج کی شب چراغ جلائیں اونچی رکھیںلو

ای پیپر دی نیشن