مولانا فضل اُلرحمن نے اپنی گُفتار میں بار بار عمران خان کو ’’یہودیوں کا ایجنٹ‘‘ قرار دیتے ہیں اورجواب میں عمران خان نے بھی اپنا تکیہ کلام بنا لیا ہے کہ ’’مولانا فضل اُلرحمن کے ہوتے ہُوئے یہودیوں کو پاکستان میں کسی دوسرے ایجنٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔‘‘
پرویزرشید، مولانا صاحب کے گواہ؟
بونیر میں محمود غزنوی کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے مولانا فضل اُلرحمن نے کہا کہ مَیں نے پہلے ہی کہہ دِیا تھا کہ ’’پاکستان تحریکِ انصاف یہودی لابی ہے اور اُسے پاکستان میں مغربی تہذیب پھیلانے کے بدلے بیرونی امداد مِل رہی ہے جِس کی تصدیق وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے بھی کر دی ہے۔‘‘ کسی دعوے کی تصدیق کرنے والے کو ’’گواہ‘‘ کہا جاتا ہے ’’گواہ‘‘ دو قِسم کا ہوتا ہے۔ گواہِ سماعی (سُنی سُنائی بات کی گواہی دینے والا) اور گواہِ شاہد (وہ گواہ جِس نے کوئی معاملہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو)۔ جناب پرویز رشید کس طرح کے گواہ ہیں؟ بعض اوقات کوئی گواہ ’’فریق ثانی‘‘ سے بھی مِل بھی جاتا ہے۔ بقول حضرت امیر مینائی ؔ …
’’ دِل و جگر بھی طرف دار ہو گئے اُن کے
مرے حریف سے جا کر، مرے گواہِ ملے‘‘
یہ درست ہے کہ مولانا فضل اُلرحمن وزیراعظم نوازشریف کے اتحادی ہیں لیکن سینیٹر پرویز رشید مولانا صاحب کی مرضی کے مطابق گواہی دینے سے پہلے سو بار سوچیں گے۔ اِس لئے بھی کہ مولانا صاحب اپنے اتحادی بدلتے رہتے ہیں۔ وزیراعظم بے نظیر بھٹو، صدر جنرل پرویز مشرف، صدر آصف زرداری کے بعد وزیراعظم میاں نواز شریف، جناب عمران خان نے صِرف ایک بار مولانا فضل اُلرحمن کی اقتداء میں نماز پڑھی ہے۔ اگر وہ وضو کر کے پھر کبھی آگئے تو مولانا صاحب کے لئے مشکل پیدا ہو جائے گی۔ مرزا غالب کے خلاف ’’گواہِ عشق‘‘ طلب ہُوئے تو انہوں نے کہا …؎
’’پھر ہُوئے ہیں گواہِ عشق طلب
اشک باری کاحُکم جاری ہے‘‘
سوال یہ ہے کہ ’’گواہِ سیاست‘‘ کے طور پر سینیٹر پرویز رشید کو کون طلب کرے گا؟ اور وہ اپنی گواہی کو سچ کیسے ثابت کریں گے؟
"Khadim-i-Aala on Facebook"
جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تو سرکاری اعلان کے مطابق کل (23 نومبر کو) کسی وقت خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف "Facebook" پر ’’عوام‘‘ کے سوالوں کے جوابات دے کر تاریخ میں نام پیدا کر چکے ہوں گے۔ مُغل بادشاہ اکبر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہر صبح رعایا کو شاہی محل کے جھروکے میں آ کر اپنا چہرہ دکھایا کرتا تھا۔ اِس رسم کو ’’جھروکا درشن‘‘ کہتے تھے۔ اکبر بادشاہ کے زمانے میں اگر کمپیوٹر ایجاد ہو چکا ہوتا تو وہ پہلے اپنی رعایا کے ذہین ترین بیٹے بیٹیوں سے خوش ہو کر اُن میں کمپیوٹر تقسیم کرتا اور ’’فیس بُک‘‘ پر رعایا سے (آمنے سامنے ہو کر ) اُن سے پوچھتا کہ …؎
ہور سنائو سجنو، کِیہ حال چال اے!
خادمِ اعلیٰ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ’’فیس بُک‘‘ پر عوامی رہنمائی میرے لئے اہم ذریعہ ہے۔ مجھے فیس بُک پر بہت سے پیغامات موصول ہوتے ہیں کہ لوگ مجھ سے براہِ راست بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ یہ تو بہت اچھی بات ہے لیکن فیس بُک پر خادمِ اعلیٰ کے نام پیغامات تو پڑھے لِکھے لوگوں نے بھیجے ہوں گے جو کمپیوٹربھی "Operate" کرنا جانتے ہوں گے۔ پھر درمیان میں ’’عوام‘‘ کہاں سے آ گئے؟ البتہ خُودکُش حملہ آوروں، سیلابوں اور زلزلوں سے مارے جانے والے عوام، جن کے لواحقین کو خادمِ اعلیٰ کی طرف سے 5/5 لاکھ روپے کے چیک فوراً مِل جاتے ہیں، وہ تو اُن کو پُوجتے ہوں گے۔ ہر دِل میں خادمِ اعلیٰ کی تصویر ہو گی۔ بقول ’’شاعرِ سیاست‘‘ ہر کوئی ایک دوسرے سے کہتا ہو گا …؎
’’مجھ کو پُرسہ دے، نہ میرا چہرۂ دِل گِیر دیکھ!
خادمِ اعلیٰ کی میرے دِل میں تُو، تصویر دیکھ!‘‘
بہرحال خادمِ اعلیٰ پنجاب ملک کے چاروں صوبوں کے سابق اور موجودہ وزرائے اعلیٰ سے بازی لے گئے ہیں۔ "Facebook" پر آئیں گے تو ان کا چہرہ "An Oval Face" کتابی چہرہ کہلائے گا یعنی خوبصورت چہرہ۔ شاعروں نے اپنے اپنے انداز میں اپنے اپنے محبوب کے چہرے کی تعریف کی ہے ۔ استاد ناسخؔ نے کہا تھا…؎
’’ تمتما جاتا ہے چہرہ چاند سورج کی طرح‘‘
ایک اور شاعر نے فیض رساں شخص، کو ساقیؔ قرار دیتے ہُوئے کہا تھا…؎
’’چہرۂ ساقی چمکتا ہے برنگِ آفتاب‘‘
بے فیض محبوب ہو یا حکمران، عشّاق اور عوام اُن کے کتابی چہروں کی پرواہ نہیں کرتے ، اسی طرح کے موڈ میں ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کہتے ہیں …؎
’’ ہاں ہونٹ گلابی ہُوں، اور چہرہ کتابی ہو
ہم ڈھونڈتے پِھرتے ہیں ،کتابوں کی دُکاں اور‘‘
جس بھوکے شخص نے کسی ’’سخی‘‘ سے مسُور کی دال کا سوال کِیا تھا، اُس کا ’’غیر کتابی چہرہ‘‘ دیکھ کر ہی ’’سخی‘‘ نے اُس کی اوقات یاد دِلا کر کہا ہو گا کہ ’’یہ مُنہ اور مسُور کی دال؟‘‘ فیلڈ مارشل صدر ایوب خان نے اپنے آخری دَور میں ’’عشرۂ ترقی‘‘ مناتے ہُوئے پریس کانفرنسوں اور کبھی کبھی عام جلسوں میں بھی ’’سوال و جواب‘‘ کا سِلسلہ شروع کِیا تھا۔ اُس وقت یہ بات مشہور ہُوئی کہ ’’سوال کرنے والوں کو صدر صاحب کے سیکرٹری قُدرت اُللہ شہاب نامزد کرتے ہیں اور صدر صاحب بھی شہابؔ صاحب کے ہی لِکھے ہُوئے جوابات دیتے ہیں۔‘‘ اِس صورتِ حال کے بارے میں کسی شاعر نے کہا تھا…؎
’’ یہ سوال و جواب کیا کہنا؟
صدرِ عالی جناب، کیا کہنا؟
کیا سِکھایا ہے ، کیا پڑھایا ہے؟
قُدرت اُللہ شہاب، کیا کہنا‘‘
لیکن خادم اعلیٰ کو کبھی کسی قُدرت اُللہ شہابؔ رکھنے کی ضرورت نہیں پڑی ۔ عام جلسوں میں فی البدیہہ تقریر کرتے ہُوئے موصوف نے جوشِ خطابت میں کئی بار "Mike" توڑا اور کئی بار میزوں کو تختۂ مشق بنایا۔ 9 مئی 2014ء کو بہاولپور کی ایک تقریب میں وزیراعظم نواز شریف نے خادمِ اعلیٰ کے اِس فن کے بارے میں کہا تھا کہ ’’شہباز شریف صاحب کی تقریر اُس وقت تک ختم نہیں ہوتی جب تک کوئی مائیک یا میز نہ ٹوٹے‘‘ خادمِ اعلیٰ فیس بُک پر سوالیوں کے سوالوں کے جوابات دیتے ہُوئے کیا توڑیں گے؟ مُدّت سے کسی فقیر کا سوال حل طلب ہو تو اُسے کہتے ہیں ’’سوال لگنا۔‘‘ اُستاد شاعر منیرؔ نے کسی سے اور کیا سوال کِیا تھا، جب کہا …؎
’’ مُدّت ہُوئی، سوال لگا ہے، منیر ؔکا!
مِلتا ہے دیکھئے، درِ دولت سے کیا جواب؟‘‘
خادمِ اعلیٰ پنجاب کے فیس بُک پر آنے سے کسی سوال کو زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ جواب فوراً مِلے گا، خواہ ’’ ٹکا سا جواب‘‘ہی کیوں نہ مِلے؟ وفاقی وزیر خزانہ جناب محمد اسحاق ڈار مسلم لیگ ن کے ہر لیڈر کو ’’راہ عمل‘‘ دکھا چکے ہیں ایک نیوز چینل پر جنابِ ڈار سے اینکر پرسن نے کہا کہ ’’یورپی ممالک میں دس دس اور پندرہ پندرہ سال اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں بڑھنے نہیں دی جاتیں۔ کیا پاکستان میں ایسا نہیں ہو سکتا؟‘‘جنابِ ڈار نے کہا کہ ’’جی نہیں! اِس لئے کہ ہمارے یہاں "Free Economy" ہے۔ صدر زرداری کے ’’ سنہری دَور میں‘‘ پاکستان میں غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد کُل آبادی کا 50 فی صد تھی۔ اب بقول جنابِ ڈار 60 فی صد ہوگئی ہے۔ فیس بُک پر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ بلکہ خادم اعلیٰ سے جب یہ سوال کِیا جائے گا تو موصوف کیاجواب دیں گے؟ نہ جانے کِس سوالی نے اور کِس سے کہا تھا کہ …؎
’’ سوال کر کے مَیں خود ہی بہت پشیماں ہُوں
جواب دے کے مجھے اور شرمسار نہ کر!‘‘