محترم جنرل راحیل شریف عزت و احترام سے تین سالہ مدت پوری کر رہے ہیں۔ 29 نومبر کو وہ نئے آرمی چیف کو کمانڈ منتقل کردیں گے۔ انشاء اللہ تمام مرحلہ بخیر و خوبی مکمل ہو رہا ہے۔ ہم اس پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اور وزیراعظم محمد نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کو مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ مل جل کر نئی روایت قائم کی جارہی ہے۔ مگر اپوزیشن راہنما خورشید شاہ نے اچانک وزیراعظم کو ’’مشورہ ‘‘ دیا ہے کہ وہ صرف سینئر ترین کو ہی آرمی چیف کے منصب پر فائز کریں۔ ہمیں وزیراعظم کی راست فکری پر اعتماد کرنا چاہئے اور انکی صوابدید پر بھی مگر خود جناب وزیراعظم کے ذاتی مفاد، ان کی حکومت کے مفاد، شریف خاندان، پارلیمنٹ، جمہوریت، اور مسلم لیگ ن کے عظیم مفاد میں نہایت ادب سے ’’کچھ‘‘ عرض کرنا ہے۔ اپوزیشن راہنما کا سینئر ترین کو منصب دینے کا مشورہ کچھ ’’شک‘‘ ڈال رہا ہے کہ شائد ’’سینئر ترین‘‘ کی بجائے کسی ’’جونیئر‘‘ کو منصب پر فائز کرنے کا سوچا جارہا ہے۔ ہم جناب وزیراعظم کو اگلی بات لکھنے سے پہلے یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ان کے خلاف پانامہ مقدمے میں انہیں کوئی نقصان ہوتا ہوا ہمیں تو نظر نہیں آرہا۔ انشاء اللہ وہ اپنی حکومت کے برقرار رہنے پر پوری طرح مطمئن ہوجائیں۔ اس بنیادی وضاحتی بات کے بعد ہم عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ملک اندرونی اور بیرونی طور پر حالت جنگ میں ہے۔ خودکش حملے، بم دھماکے، کراچی میں بدامنی، بلوچستان میں بدامنی و سرکشی، قتل و غارت، بیرونی مداخلت نہ صرف موجود ہے بلکہ ہمیں مشرقی سرحد کے ساتھ ساتھ مغربی سرحد سے بھی شب خون اور مختصر مگر نہایت مہلک حملے کا اندیشہ ہے۔ امریکی نئی انتظامیہ بھی پاکستان مخالف ہے، بلکہ بہت زیادہ بھارت نواز ہے۔ یقینا وزیراعظم کی وزیراعظم بھارت سے ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں اور ممکن ہے بھارت و پاکستان میں عدم اعتماد کا کوئی راستہ ’’ایجاد‘‘ ہوسکتا ہے۔ مگر اس آپشن کو استعمال کرنے کے باوجود پاکستان کی فوج کو اب موجودہ تمام جنرلز کی شدید ضرورت ہے۔ بے شک کسی جنرل نے چھ ماہ بعد ہی کیوں نہ ریٹائر ہونا ہو تب بھی انہیں ان کی آئینی مدت پوری کرنے دنیا ملک، قوم، پارلیمنٹ، جمہوریت کیلئے نہایت ضروری اور نہایت مفید ہے۔ خدارا سوچیں یہ موجود جنرلز قوم کا اثاثہ ہیں۔ قوم کو شدید ضرورت کا تقاضا ہے کہ جناب وزیراعظم اپنی ’’صوابدید‘‘ کواستعمال کرتے ہوئے کسی ’’جونیئر‘‘ یا ’’بہت جونیئر‘‘ کو آرمی چیف کے منصب پر ہرگز ہرگز فائز نہ کریں۔ مثلاً اگر وہ سینئر ترین نمبر 1 کو منصب دے دیں تو پھر کوئی بھی ریٹائر ہونے پر خود کو مجبور نہیں پائے گا۔ لیکن اگر سینئر ترین کو منصب نہ ملا تو وہ دوسرے نمبر کو منصب ملنے کی صورت میں اپنے لئے اخلاقی طور پر ناممکن پائے گا کہ وہ جونیئر کی زیر قیادت پیشہ ورانہ فرائض سر انجام دے۔ خدانخواستہ اگر تیسرے یا چوتھے میں سے کسی کو منصب ملتا ہے تو اس سے اوپر جتنے بھی ہیں بے شک نہایت معمولی سنیارٹی ہی ہو تب بھی وہ اخلاقی طور پر جونیئر کی زیر قیادت کام کرنے پر خود آمادہ نہ کر سکیں گے۔ اندیشہ ہے جیسا کہ خورشید شاہ کا مشورہ شک بھی پیدا کر رہا ہے کہ کسی جونیئر کو آرمی چیف بنانے کا سوچا جا رہا ہے اگر ایسا ہے تو قوم، ملک، سرزمین مزید متوقع شدید ہوتی حالت جنگ میں غیر فطری طور پر ریٹائر ہونے والے جنرلز کی ’’کمی‘‘ کہاں سے پوری کرے گی؟ بھارت کے جغرافیے اور سر زمین کو کسی بھی پڑوسی سے خطرہ نہیں مگر پاکستان کو بھارت سے شدید خطرہ ہے۔ 1971ء کی طرح وہ اب بھی پاکستان کو توڑنے، مختصر بنانے، کمزور بنانے میں مصروف ہے۔ لہٰذا ہماری استدعا ہے کہ لوگوں کو باتیں بنانے کا ہرگز موقع نہ دیں۔ خدارا صرف سینئر ترین کو آرمی چیف بنانا۔ ممکن ہے وزیراعظم غیر ملکی دورے پر جانے سے پہلے یہ اعلان کر دیں۔ اسی لئے ہم نے قلم اٹھایا ہے اور نہایت اخلاص اور حسن نیت سے مذکورہ بالا مشورہ لکھا ہے تاکہ ان سے کہیں کوئی غلطی نہ ہو جائے جس سے فوج میں احساس محرومی پیدا ہو اور قوم بھی وزیراعظم سے بدگمان ہو جائے۔ خدارا اب کی بار جونیئر والی فاش غلطی ہرگز نہ کریں۔