اعلیٰ پیسہ وارانہ خدمات کے ساتھ رخصت

آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مقررہ تاریخ پر ریٹائرمنٹ رواں ہفتے کی اہم خبر ہے ۔کسی بھی جمہوری ملک میں فوج کے سربراہ کی ریٹائرمنٹ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہوتی لیکن پاکستان کے مخصو ص حالات کے پیش نظر آرمی چیف کی’’ تقرری اور ریٹائرمنٹ ‘‘ ایک خاص دی جاتی ہے۔ جب سے جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنی مدت ملازمت میں ایک ’’ٹرم‘‘ کی توسیع لی پچھلے کئی ماہ سے قومی حلقوں میں جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ موضوع گفتگوبنا رہا۔ یہ بات برملا کہی جا رہی تھی کہ پاک بھارت سرحدوں پر کشیدگی اور نامکمل ضرب عضب کے پیش نظر موجودہ آرمی چیف کی خدمات مزید عرصہ کے لئے جاری رہیں گی جس کیلئے وزیر اعظم محمد نواز شریف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خواہشمند ہیں لیکن اچانک ’’اسلام آباد اور راولپنڈی ‘‘ کے درمیان کیا ہوا؟ کہ تمام اندازے ’’ الٹ پلٹ ‘‘ہو گئے آئی ایس پی آر کی جانب سے باضابطہ طور آرمی چیف کی الوداعی ملاقاتوں کر اعلان دیا گیا ۔ جنرل راحیل شریف نے مدت ملازمت میں توسیع لی اور نہ ہی وزیر اعظم محمد نواز شریف نے انہیں مدت ملازمت میں توسیع قبول کر نے پر مجبور کیا۔ جنرل راحیل شریف سے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں یہ ملاقاتیںحکومت اور فوج کے درمیان تعلقات کار بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی رہیں میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حق میں تھے انہوں نے وزیر اعظم محمد نواز شریف کو جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع دینے پر آمادہ کر لیا تھا لیکن آرمی چیف نے بروقت ریٹائرمنٹ لینے کے اعلان کی پاسداری کرتے ہوئے ’’ باوقار ‘‘ ریٹائرمنٹ کو ترجیح دی ۔ جبکہ غیر سرکاری سطح پر کوئی بھی حتمی بات کہنے کی پوزیشن میں نہیں تھا ۔ آئی ایس پی آر نے اعلان کر کے جنرل راحیل شریف کے’’ مستقبل ‘‘کے بارے میں بالآخر قیاس آرائی ختم کر دی۔ جنرل راحیل شریف کی سپہ سالار کی حیثیت سے خدمات ہمیشہ یادگار رہیں گی۔
پچھلے ساڑھے تین سال کے دوران نوازشریف حکومت گرانے کی ناکام کوششیں کی جاتی رہیں عمران خان بار بار ’’ تھرڈ امپائر‘‘ کی انگلی اٹھنے کے منتظر ہی رہے ، جنرل راحیل شریف کی جانے کی باتوں پر پوسٹر لگائے جاتے رہے لیکن تھرڈ امپائر کی انگلی اٹھی اور نہ ہی جمہوری نظام کو لپیٹنے کی ترغیبات کو پذیرائی حاصل ہوئی۔ جنرل راحیل شریف نے جمہوریت کے خلاف سازش کرنے والے عناصر کو مایوس کیا اور ہمیشہ جمہوری نظام کے استحکام کا باعث بنے۔ پچھلے تین سال کے دوران وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیاں جتنی ملاقاتیں ہوئیں شاید ہی کسی اور وزیر اعظم کے دور میں اس قدر رابطہ رہا ہو جس کے باعث یہ بات کہی جاتی رہی کہ حکومت اور فوج ایک ’’صفحہ‘‘ پر ہیں ایسے بھی مواقع آئے ہیں جب حکومت اور فوج کے درمیان مختلف ایشوز پر اختلاف رائے دیکھنے میں آیا لیکن سیاسی اور عسکری قیادت نے مل بیٹھ کر اسے حل کرنے کی کوشش کی ۔ عمران خان نے ’’سیاسی ایڈونچر‘‘ کر کے فوج کے لئے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش بھی کی اسی طرح ان کے سیاسی مشیر شیخ رشید احمد ان کو جس راہ پر چلانے کے لئے کوشاں رہے اس میں ناکامی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فوج کی جانب سے کسی ان کے کسی ’’سیاسی ایڈونچر‘‘ کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے ایک ملاقات میں اس بات کا برملا اعتراف کیا تھا کہ جنرل راحیل شریف نے عمران خان کے دھرنے کی آڑ لے کر جمہوری نظام کی بساط نہیں لپیٹی جب کہ اپوزیشن نہ صرف ان کو ترغیب دیتی رہی بلکہ مواقع فراہم کرنے کی کوشش کرتی رہی۔
جنرل راحیل نے سیاسی قیادت کی سپورٹ سے ضرب عضب ، کراچی اور بلوچستان آپریشن سے دہشت گردی پر قابو پایا ایک بہادر جرنیل کے طور پر ان کا نام سالہاسال تک یاد رکھا جائے گا ۔ ان کی شاندار خدمات کی وجہ سے ان کو ’’فیلڈ مارشل‘‘ بنانے کی تجویز بھی زیر غور رہی ہے ۔ شنید ہے کہ ان کو سعودی عرب کے قائم کردہ 34رکنی فوجی اتحاد کا سربراہ یا سعودی عرب کا ملٹری ایڈوائز بنانے کی پیشکش موجود ہے۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کسی کو ’’سپر پرائم منسٹر‘‘ تسلیم نہیں کرتے ان کی شاید کسی آرمی چیف سے بنی ہو لیکن ان کی جنرل راحیل شریف سے خوب بنی کبھی کبھی ایسی خبریں بھی آئیں جن سے اس تاثر کو تقویت ملی کہ دونوں کے درمیان فاصلے پائے جاتے ہیں لیکن پھر بھی مجموعی طور دونوں کے درمیان خوشگوار تعلقات رہے ۔اب وزیر اعظم محمد نواز شریف کے سامنے سب بڑا مسئلہ ایک ایسے آرمی چیف کا انتخاب ہے جو نہ صرف ضرب عضب ، کراچی اور بلوچستان کے نامکمل ایجنڈے کی پوری قوت سے تکمیل کر سکے گا بلکہ وہ اس کے ساتھ اپنے آپ کو eazy feelکریں نئے آرمی چیف کی تقرری کا عمل شروع ہو چکا ہے یہ پہلا موقع ہے عسکری پس منظر رکھنے والی شخصیت وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نئے آرمی چیف کی تقرری کے وقت بیرون ملک ہیں ۔شنید ہے وزیر اعظم نے چوہدری نثار علی خان سے ان کی برطانیہ روانگی سے قبل مشاورت کر لی تھی بعد ازاں ان کی چوہدری نثار علی خان سے ٹیلی فون پر بھی اس سلسلے میںمشاورت رہی ہے۔ چار سینئر جرنیلوں لیفٹیننٹ جنرل زبیر حیات ،لیفٹیننٹ جنرل اشرف ندیم ، لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال اور لیفٹیننٹ جنرل قمرباجوہ میں سے دو کے سر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف اور آرمی چیف کا تاج سجے گا ۔ وزیر اعظم محمد نوازشریف نئے آرمی چیف کی تقرری کا اعلان کسی وقت بھی کر سکتے ہیں انہیں پینل میں سے کسی کو بھی آرمی چیف مقرر کرنے کا ’’صوابدیدی‘‘ اختیار حاصل ہے ۔ وزیراعظم نواز شریف کے لئے پانچواں موقع ہوگا جب وہ پاک فوج کے سربراہ کا تقرر کریں گے، ان کو سب سے زیادہ مرتبہ آرمی چیفس کی تقرری کا اعزاز حاصل ہے۔ نومبر 2013میں اس وقت لیفٹیننٹ جنرل محمد ہارون اسلم سینیارٹی کے حوالے سے پہلے نمبر پر تھے تاہم وزیر اعظم نے جنرل راحیل شریف کو فور سٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دے کرآرمی چیف بنادیاتھا۔ لیفٹیننٹ جنرل زبیر اور لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم کے درمیان دو اور لیفٹیننٹ جنرل بھی ہیں ، ایک ہیوی انڈسٹریل کمپلیکس ٹیکسلا کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل سید واجد حسین اور دوسرے ڈائریکٹر جنرل جوائنٹ اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل نجیب اللہ خان۔تاہم یہ دونوں افسران آرمی چیف کے عہدے کیلئے تکنیکی طور پر اہل نہیں کیوں کہ انہوں نے کبھی کسی کور کی کمانڈ نہیں کی ۔آرمی چیف اور چیئر مین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدوں پر تقرری کا عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب وزیر اعظم وزارت دفاع کے توسط سے جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) سے چھ سر فہرست لیفٹیننٹ جنرلز کے پینل کی تفصیلات پر مبنی دستاویز طلب کرتا ہے۔قانون کے تحت اگر کوئی شخص آرمی چیف کے عہدے کیلئے سفارش کرسکتا ہے تو وہ ہے وزیر دفاع۔جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ حکومت اور فوج کے درمیان آرمی چیف کی تقرری کے معاملے پر مشاورتی عمل ہوا ہے جو پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے پاکستان سمیت دنیا بھر میں آرمی چیف کی تقرری کے لئے ادارہ جاتی طریق کار موجود ہے جس پر معمول کے مطابق عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستانی میڈیا میں اس معاملہ پر بحث فیشن بن گیا ہے۔بلا شبہ کسی بھی ادارے میں اعلیٰ تقرریوں کے معاملے پر کوئی بدگمانی اور ابہام موجود نہیں ۔ قومی اسمبلی میں قائد حز ب اختلاف خورشید شاہ نے کہا ہے کہ سینئر ترین افسروں کو نیا آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی مقرر کیا جائے، ایسا کرنے سے فوجی افسران کا مورال بلند ہوگا۔
آج کے کالم میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے دورہ برطانیہ کا ذکر نہ کیا جائے تو زیادتی ہو گی۔چوہدری نثار آپریشن کی پیچیدگیوں کے باعث فوری طور پر وطن واپس نہیں آ سکے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان جو کچھ دنوں سے علیل ہیں انہوں نے اپنے دورہ برطانیہ کے دوران بھی اپنے اوپرعلالت کو حاوی نہیں ہونے دیا ۔وفاقی وزیرداخلہ نے برطانوی ہم منصب امبر رڈ سے ملاقات میں پاک برطانیہ تعلقات، سیکیورٹی، کائونٹر ٹیررازم، غیر قانونی تارکین وطن، منظم جرائم، انسداد منشیات، منی لانڈرنگ سمیت مختلف امور بات چیت کی ہے اور انہیں حال ہی میں منظور شدہ سائبر کرائم کی روک تھام سے متعلقہ بل کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن