عدالت سے انصاف کا انتظار کئے بغیر الزام تراشی

آرمی چیف جنرل راحیل شریف اہل وطن میں نیک نامی کمانے کے بعد رواں ہفتے اپنی مدت ملازمت پوری کر کے عہدے سے سبکدوش ہونے جا رہے ہیں۔ ان کے حوالے سے ان لوگوں نے ہی افواہوں کی گرد اڑائی تھی جو ملک میں خود کو آئیڈیل جمہوریت کا خواہاں قرار دیتے ہیں۔ تاہم گرد بیٹھنے کے بعد جنرل راحیل شریف کے قد میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ ادھر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری یہاں لاہور میں ہیں اور پیپلز پارٹی پنجاب میں سیاسی مقام حاصل کرنے کیلئے ہاتھ پاﺅں مارنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اگلے ہفتے 30 نومبر کو پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس پر پارٹی کی نئی صوبائی قیادتوں کا امتحان ہو گا۔ جہاں تک مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کا تعلق ہے دونوں کی جانب سے ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری ہے اور ان میں سے کوئی بھی عدالتوں میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہونے کا انتظار کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ عمران خان لندن سے واپسی پر چند گھنٹے لاہور میں قیام کر کے اسلام آباد جا چکے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف حسب معمول پنجاب کے سیاسی منظر نامے پر چھائے ہوئے ہیں انکی قائم کردہ وزیر اعلیٰ پبلک افیئرز یونٹ ان کی گائیڈ لائن کی روشنی میں سیاسی معاملات چلا رہے ہیں تاہم مسلم لیگ ن میں تاحال پارٹی کے سیکرٹری جنرل اور صوبہ پنجاب کے جنرل سیکرٹری کے عہدے خالی ہیں۔ ہمیں حیرت ہے کہ جناب نواز شریف اور جناب خادم اعلیٰ پنجاب کی عوامی جمہوریہ چین سے دوستی بھی انہیں پارٹی میں سیکرٹری جنرل کے عہدے کی اہمیت کا احساس نہیں دلا سکی۔
جہاں تک آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کا تعلق ہے وہ ایک نہ ایک دن تو ہونا تھی۔ سو ان کے عہدے کی میعاد پوری ہونے پر ہو رہی ہے۔ تاہم وہ خوش قسمت انسان ہیں کہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں نہ صرف سرخرو ہوئے بلکہ افواج پاکستان کے ان نیک نام سپہ سالاروں میں ان کا شمار ہو گا جن کے کردار اور عمل کے انمٹ نقوش تادیر فوج پر رہیں گے۔ پاکستانی قوم جہاں ان کو زبردست خراج تحسین پیش کرتی رہے گی وہاں ان کے جانشیں کیلئے بھی دعا گو ہو گی کہ وہ اپنے پیشرو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک و قوم کو درپیش مسائل بھارت کی جارحیت، افغان تنازع، مقامی دہشت گردوں کے داعش کے جہادیوں کے ساتھ بڑھتے تعلقات سے احسن انداز میں نمٹ سکیں۔
جہاں تک ہفتہ رفتہ میں سیاسی سرگرمیوں کا تعلق ہے ان میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اس لحاظ سے نمایاں رہیں کہ ان کے سربراہان میاں نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری لاہور میں موجود رہے۔ میاں صاحب تو اسلام آباد جا چکے لیکن جمعرات 17 نومبر کو لاہور پہنچنے والے بلاول بھٹو زرداری تاحال یہاں موجود ہیں۔ انہوں نے دربار داتا گنج بخشؒ پر حاضری دی اور جہانگیر بدر مرحوم کی رہائش گاہ جا کر ان کے اہل خانہ سے ان کی وفات پر تعزیت کی تاہم ان کی سرگرمیوں کا مرکز بلاول ہاﺅس ہی ہے۔ بلاول ہاﺅس اور وزیراعظم ہاﺅس جاتی عمرا میں ایک قدر مشترک ہے کہ دونوں جگہ ہی عام سیاسی کارکن نہیں جا سکتے۔ بلاول بھٹو زرداری نے صوبائی تنظیمیں اناﺅنس کر دی ہیں۔ کراچی اور لاہور کی تنظیموں کا درجہ صوبائی تنظیموں والا ہے۔ سو کراچی کی تنظیم کا اعلان بھی سامنے آ گیا ہے تاہم پیپلز پارٹی لاہور اس لحاظ سے بدقسمت ہے کہ بلاول ہاﺅس لاہور میں بیٹھ کر ان کے چیئرمین لاہور پی پی پی کی تنظیم کا تاحال فیصلہ نہیں کر سکے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ بلاول ہاﺅس میں انہوں نے بھی ورکرز کنونشنوں کے انعقاد کا فیصلہ کیا ہے ان کے بعد لاہور تنظیم کی باری بھی آ جائے۔
جہانگیر بدر مرحوم کی رہائش گاہ پر مسلسل تعزیت کیلئے آنے والوں کا تانتا باندھا ہوا ہے۔ مسلم لیگ ن کے سربراہ اور وزیراعظم محمد نواز شریف، صوبائی صدر پنجاب وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف، وفاقی و صوبائی وزراءجن میں اسحاق ڈار، راجہ اشفاق سرور سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اور دیگر ن لیگی رہنماﺅں سمیت ملک کی تمام بڑی چھوٹی سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور اہم رہنماﺅں نے جہانگیر بدر مرحوم کے اہل خانہ سے وہاں آ کر تعزیت کی۔ اس سے مرحوم کے ساتھ سیاسی رہنماﺅں کے سماجی تعلقات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ نواز شریف، شہباز شریف، اسحاق ڈار، خواجہ سعد رفیق اور جہانگیر بدر کے درمیان سیاسی اختلاف رہا جسے ان تمام حضرات نے بخوبی نبھایا لیکن ان کے دمیان جو سماجی تعلقات رہے وہ سیاست کا حسن ہیں۔
ترک صدر رجب طیب اردگان کا ایک روزہ دورہ لاہور بھی یادگار حیثیت کا حامل رہا۔ وزیراعظم محمد نواز شریف اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے ادوار حکومت میں برادر ملک ترکی کے ساتھ تعلقات کو ہمیشہ فروغ حاصل ہوا ہے جس پر ماسوائے ن لیگ کے کٹڑ سیاسی مخالفین کے ساری قوم بہت خوش ہے۔ بالخصوص دینی سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان نہ صرف اسلامی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات میں مزید بہتری لائے بلکہ مسئلہ کشمیر کے سلسلہ میں اسلامی ممالک کے مشترکہ پلیٹ فارم بھی استعمال کرے۔ دینی سیاسی جماعتوں نے ملی یک جہتی کونسل کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جبکہ جماعت اسلامی اپنی لبرل سیاسی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ جماعت اسلامی کی لبرل پالیسی کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ جس جماعت سے فائدہ مل سکے اس کے ساتھ اتحاد کر لیا جائے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی قیادت میں اس پالیسی نے جماعت اسلامی کے تشخص کو نقصان پہنچایا ہے امیر سراج الحق سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ کے علاوہ صوبائی امیر پنجاب میاں مقصود احمد اور امیر جماعت اسلامی لاہور ذکر اللہ مجاہد بلاشبہ بہت متحرک شخصیات ہیں اور انہوں نے جماعت اسلامی کے کارکنوں اور بہی خواہوں کو متحرک رکھنے کیلئے جماعتی پروگراموں کا تسلسل قائم رکھا ہوا ہے۔ اتوار 20 نومبر کو ماڈل ٹاﺅن میں جماعت اسلامی لاہور کی طرف سے دیئے گئے استقبالیے میں کارکنوں کے علاوہ مقامی شہریوں کی شرکت بلاشبہ جماعت اسلامی کی قیادت کیلئے خوشی کا باعث بنی ہو گی تاہم استقبالیہ تقریب میں سراج الحق، لیاقت بلوچ، ذکر اللہ مجاہد اور ملک شاہد اسلم نے بھی حاضرین کے دلوں کو خوب گرمایا۔ جماعت اسلامی کے علاوہ یہاں جماعت الدعوة، پاکستان عوامی تحریک، جمیعت علماءپاکستان نورانی اور جمعیت علماءاسلام ف بھی خاصی فعال ہیں لیکن کارکنوں کی حد تک ان کی قوت سے عوامی پذیرائی سے یہ جماعتیں محروم دکھائی دیتی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...