پرندے ہماری دنیا کے رنگ و روپ میں اضافے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ ہم انہیں اپنی زندگی سے کسی طرح بھی جدا نہیں کر سکتے۔ ہم انتہائی بور ہو رہے ہوں اور کسی طوطے یا کوئل کی آواز ہماری سماعتوں سے ٹکرائے تو ہماری بوریت میں خاطر خواہ کمی واقع ہو جاتی ہے۔ ان حالات میں جب شہری علاقوں سے درختوں کا صفایا ہوتا جا رہا ہے اور قریبی علاقوں کے باغات بھی دھڑا دھڑ کٹ کر رہائشی کالونیوں میں تبدیل ہو رہے ہیں‘ کوئل کی آواز سننا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ ویسے بھی کوئل کی کوؤں سے نہیں بنتی۔ کوے چونکہ آبادی میں زیادہ ہیں اورجمہوری دور ہونے کی وجہ سے ان کو کوئل پر عددی و نفسیاتی برتری حاصل ہے۔ اس لئے سنی بھی طوطوں کی ہی جائے گی‘ کوئل کی کوئی خبرنہیں لے گا۔ بالکل اسی طرح جس طرح ترقیاتی و ہاضمہ جاتی فنڈز صرف حکومتی نمائندوں کو ہی ملتے ہیں اور اپوزیشن والے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔
کوئل کوؤں کو جہاں بھی نظر آئے وہ اسے ٹھونگے مار مار کر اپنی حدود سے بہت دور بھگانے میں دیر نہیں لگتے۔ کوئل عموماً چھپ کر اپنی کارروائی کرتی ہے وہ کوؤں کے گھونسلوں کے قریب ہی چھپی رہتی ہے اور موقع ملتے ہی کوؤں کے گھونسلے میں اپنا انڈہ دے دیتی ہے اور کوے کا ایک انڈہ اس کے گھونسلے سے نیچے گرا دیتی ہے۔کوئل کا انڈہ کوے کے انڈے سے بڑا ہوتا ہے لیکن مادہ کوا اسے اپنا انڈہ سمجھ کر سینچتی رہتی ہے۔ کوئل کا بچہ بھی انڈے سے کوے کے انڈے کی نسبت جلدی نکل آتا ہے اور آنکھیں کھولتے ہی سب سے پہلے کوے کے باقی انڈوں کو گھونسلوں سے باہر دھکیل دیتا ہے کوے کوئل کے بچے کو اپنا بچہ سمجھ کر پالتے رہتے ہیں جو مسلسل اپنی ماں کی نگرانی میں بھی ہوتا ہے جیسے ہی وہ اڑنے کے قابل ہو جاتا ہے تو ماں کوئل اسے لے کر اڑ جاتی ہے اور کوے’’پر‘‘ ملتے رہ جاتے ہیں۔ یوں کوؤں کی کوئل سے زبردست نسلی دشمنی ہے جس میں صلح صفائی کی کوئی گنجائش نہیں۔میں نے اپنے ایک آرٹیکل میں طوطے کو بے ضرر پرندہ کہا تھا جو اپنی خوبصورتی سے سب کا دل موہ لیتا ہے۔ اس کا رنگ برنگا پہناوہ‘ چھوٹی چھوٹی جگنوؤں جیسی گھومتی چمکتی آنکھیں اور مڑی ہوئی ہُک نما چونچ اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتی ہیں۔ اس پر اس کی ٹیں ٹیں اسے اور بھی نمایاں کر جاتی ہے۔ البتہ اب میں اپنے طوطے کو معصوم کہنے والا بیان واپس لیتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آسٹریلیا میں طوطوں نے انت مچا دی ہے۔ انہوں نے اپنی ہُک نما چونچوں سے نئی بچھائی گئی براڈبینڈ کی کیبلوں کوزبردست نقصان پہنچایا ہے ان کی زخمی کردہ تاروں کی مرمت پر لاکھوں ڈالرز خرچ ہوگئے ہیں جبکہ ان کیبلز کی پوری قیمت اربوں ڈالرز میں ہے۔جانوروں کے آسٹریلوی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ طوطے ان کیبلز کو کاٹ کاٹ کر اپنی چونچوں کو مزید تیز کرتے جا رہے ہیںاور اب یہ اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو کتر سکتے ہیں۔ غالباً یہ طوطے ان کیبلز کو اپنے رستے کی رکاوٹ سمجھتے ہیں جو ان کی اونچی اڑان میں خلل ڈالتی ہیں۔ انسانوں نے تو ان کے لئے آسانی نہ سوچی لیکن انہوں نے خود اپنے رستے میں آنے والی رکاوٹوں کو ہٹانے کا نہ صرف فیصلہ کر لیا ہے بلکہ اس کے لئے عملی اقدامات بھی شروع کردیئے ہیں۔ اب یا تو آسٹریلوی حکومت کو بار بار کا یہ نقصان برداشت کرنا پڑے گا یا پھر طوطوں کے رستے کی اس رکاوٹ کو ہٹا کر زیر زمین بچھانا پڑے گا۔ ہر دو صورتوں میں بھاری اخراجات برداشت کرنا اب آسٹریلوی حکومت کیلئے نوشتہ دیوار بن چکا ہے۔ ہمارے ہاں آسٹریلوی طوطوں کی بہت مانگ ہے اور انہیں گھروں میں رکھنے کا زبردست رحجان پایا جاتا ہے ان کی برڈنگ بھی یہاں ہی کروائی جاتی ہے۔ اسی طرح یہ آسٹریلین کم پاکستانی طوطے بن جاتے ہیں۔ ادھر ہی پیدا ہونے کی وجہ سے ان کی آسٹریلوی طوطوں والی دہشت گردانہ صلاحیتیں کچھ ماند پڑ جاتی ہیں۔ آسٹریلوی طوطوں کے بریڈنگ کو چاہئیے کہ جب اگلی بار وہ طوطوں کی کھیپ منگوائیں تو جانچ پرکھ کرامن پسند جوڑوں کا انتخاب کریں تاکہ ہم پاکستانی ان کی صلح جوئی کی تعریف کر سکیں۔ دوسری صورت میں ایسا نہ ہوا کہ وہ پنجروں کی سلاخیں کتر کر باہر آ جائیں اور ہمارے بجلی کے کھمبوں کی تاریں مزید خراب کردیں اور ایسا نہ ہو کہ لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مزید اضافہ ہو جائے۔