گزشتہ روز قومی اسمبلی نے بھاری اکثریت کے ساتھ نااہل قرار پانے والے شخص کو پارٹی صدارت کیلئے بھی نا اہل قرار دینے کے بارے میں اپوزیشن کا بل ایوان میں نعرہ بازی کے ہنگامہ خیز ماحول میں مسترد کر دیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے سپیکر کے فیصلہ کو چیلنج کیا جس پر رائے شماری کرائی گئی۔ ترمیمی بل کے حق میں اپوزیشن کے 98 ارکان کھڑے ہوئے جبکہ مسلم لیگ نون اور اتحادی جماعتوں کے 163 ارکان نے بل کو مسترد کرنے کے حق میں رائے دی۔ مسلم لیگ نون کے رکن اور سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی نے کھڑے ہو کر اپوزیشن کے حق میں ووٹ دیا جو بڑا معنی خیز ہے۔ اپوزیشن کو شکست اور حکومت کی واضح فتح کا راز صوبہ پنجاب کے ارکان کی مسلم لیگ نون اور خصوصی طور پر میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف کی لیڈر شپ کے ساتھ موجودہ دور کی مشکلات کے باوجود وابستگی اور وفاداری کا تسلسل ہے۔ وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا کہ بھٹو حکومت نے 1975ء میں نا اہلی شق کو نکالا اور پرویز مشرف نے اس شق کو دوبارہ متعارف کرایا۔ مشرف نے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کا راستہ روکنے کیلئے اسے شامل کیا۔ یہ وقت کا جبر ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے اسی شق کو دوبارہ شامل کرانے کی کوشش کی ہے۔ کئی دیگر اراکین اسمبلی نے بھی ماضی میں ملکی سیاست اور بالخصوص صوبہ پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے حکمرانی کے خواب کو پھر سے زندہ کرنے کا ذکر کیا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور ان کے والد جناب آصف علی زرداری اگلے انتخابات میں چاروں صوبوں میں اپنی پارٹی کی حکومت کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ یہ خواب اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک پنجاب پر پیپلز پارٹی کا قبضہ نہ ہو۔ بعض ممبران نے محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت 1993-96ء کا بھی ذکر کیا۔ جس کے دوران پنجاب کے صوبہ میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی تھی۔قومی اسمبلی میںمسلم لیگ نون کے شاندار پاور شو اور میاں محمد نواز شریف کی پارٹی صدارت کو برقرار رکھنے کا کارنامہ صوبہ پنجاب کے ووٹ کامرہون منت ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ایک تاریخی حقیقت ہے صوبہ پنجاب پاکستان کی سیاسی اور پارلیمانی طاقت کی چابی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس صوبے پر موثر عمل دخل اور کنٹرول کے بغیر کوئی مرکزی حکومت دیر تک مرکز میں قائم نہیں رہ سکتی۔ نگران وزیر اعظم مرحوم معین قریشی اور ان کے بعد شہید بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں بحیثیت پریس سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر اعلیٰ ترین سطح پر ملکی سیاست کے شطرنج کے کھیل کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور یہ حقیقت مجھ پر اجاگر ہوئی کہ نہ صرف وزیراعظم بلکہ صدر مملکت اپنی پوزیشن اور مرتبہ کے استحکام کیلئے صوبہ پنجاب کو کس قدر خصوصی ترجیحی نظروں سے دیکھتے ہیں۔
جتنا طویل عرصہ شریف برادران نے پنجاب اور پورے پاکستان پر حکومت کی ہے۔ کسی اور فرد کو اس خوش قسمتی کا نادر اور طویل سنہری موقع نہیں ملا جس میں وہ صحیح خطوط پر عوام کی خدمت کرتے ہوئے ترقی کے جدید دور میں وہ مقام دے سکتے جو علامہ اقبال اور قائد اعظم کے تصور پاکستان کے مطابق ہمارا مقدر ہے۔ لیکن بدقسمتی سے قائد اعظم اور نوابزادہ لیاقت علی خان کی وفات کے بعد بہت سی وجوہات کی بناء پر ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ قیام پاکستان سے لیکر آج تک 70 برس کے دوران تقریباً 35 برس فوجی قیادت اور اتنا ہی عرصہ سول جمہوری حکومت برسر اقتدار رہی ہے۔ لیکن ’’زمین جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ اگر ہم اپنے ہی خطہ میں دیگر ہمسایہ ممالک کی طرح شاہراہ ترقی پر 50 فیصد سست روی اور قیادت کے قحط کے باعث اپنی منزل اور ترجیحات کے ساتھ قومی ٹارگٹس کی طرف صحیح سمت میں چلتے تو غیروں کی گرفت میں آ کر قرضوں کی دلدل میں پھنس کر موجودہ شرمناک حالت تو نہ ہوتی کہ ہمارے قومی فیصلے لندن اور واشنگٹن میں صادر ہوتے ہیں۔
90 کی دہائی میں جب صدر غلام اسحاق خان نے 18-4-1993کے دن وزیراعظم نواز شریف کو ان کے عہدہ سے فارغ کیا۔ جناب غلام حیدر وائیں اس وقت پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے۔ صدر اسحاق خان نے سیاست کی شطرنج کو ایسے حرکت دی کہ جناب منظور وٹو کو تخت لاہور پر بیٹھا کر وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیا گیا۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 26-5-1993کو میاں محمد نواز شریف کو بحال کر دیا۔ لیکن منظور وٹو کے ستارے عروج پر تھے۔ چنانچہ جناب نواز شریف وٹو صاحب کو تخت لاہور سے ہٹا نہ سکے۔ شطرنج کی اس بازی میں صدر اسحاق خان غالب رہے اور 28-6-1993کے ریزولوشن کے مطابق میاں نواز شریف کو دوبارہ وزیراعظم کے عہدہ سے دستبردار ہونا پڑا۔ صدر غلام اسحاق خان بھی صدارت سے فارغ ہو گئے اور جناب معین قریشی مرحوم نے نگران وزیراعظم کا قلمدان سنبھال لیا۔ نئے وزیراعظم نے راقم کو پریس سیکرٹری اور میڈیا ایڈوائزر کی ذمہ داریاں سونپیں۔ انتخابات کے بعد شہید بے نظیر بھٹو نے دوسری بار وزارت عظمی کا قلمدان سنبھالا اور راقم کو اپنے فرائض جاری رکھنے کا حکم دیتے ہوئے اپنے بھر پور اعتماد کی عزت دی۔ محترمہ کی عمر کے لحاظ سے ان کی ذہانت فراست اور سیاست پر گہری نظر کے بارے میں تاریخ شاہد ہے وہ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم ہونے کا اعزاز رکھتی ہیں۔
شہید وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی ہونے کے علاوہ ان کی اپنی شہادت نے بے نظیر بھٹو کو دختر مشرق کا اعزاز دیا۔ نواز شریف کی غلطیوں سے بے نظیر نے بہت سے سبق سیکھے تھے۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ بحیثیت وزیراعظم ان کی اپنی کامیابی اور SURVIVAL کے لئے صوبہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی مضبوط گرفت اور صوبائی حکومت پر کنٹرول لازم ہے۔ اس کیلئے منظور وٹو کے موجودہ عہدے سے ہٹانے اور پنجاب میں پارٹی کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنا محترمہ کی اولین سیاسی ترجیح تھی۔ صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ جونیجو کے ساتھ بظاہر COALITION PARTNER کا اتحاد قائم کرتے ہوئے اپنی حکومت کے صوبہ میں لوکل گورنمنٹ کا جلد از جلد ایسا APPARATUS قائم کرنا تھا جس سے ڈویلپمنٹ فنڈز کو گراس روٹس سطح تک اپنی ترجیحات کے مطابق استعمال کیا جا سکے۔ دوسرا مرکز میں ایک "COMMITTEE ON RESEARCH AND ANALYSIS" کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جو وزیراعظم کیلئے ایک تھینک ٹینک کا کام کرتی تھیں اور وزیراعظم کے دفتر میں ہی اس کمیٹی کا خصوصی سیل لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ راجہ سروپ کی صدارت اور وفاقی سیکرٹری اجلال حیدر زیدی کی کوآرڈی نیشن و نگرانی میں کام کرتا تھا۔ پنجاب کے امور میں منظور وٹو کی صوبائی حکومت کا خاتمہ اور پیپلز پارٹی کے صوبہ پنجاب میں آئینی اور سیاسی عمل دخل کے طریقہ کار وضع کرنا اس خصوصی سیکرٹ کمیٹی کے ترجیحی ایجنڈا میں شامل تھے۔ حالات اور تقدیر کے ستم ملاحظہ فرمائیں کہ آج وہی جناب منظور وٹو جناب آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی پنجاب کے چوٹی کے لیڈروں میں شمار ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ جونیجو کا کہیں نام و نشان نہیں اور مسلم لیگ نون کے سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے نا اہل قرار دیئے گئے وزیراعظم جناب نواز شریف کو مسلم لیگ نون اور پارلیمنٹ اپنا سپریم لیڈر اور عملی طور پر وزیراعظم تسلیم کرتی ہے۔ بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے۔