کارل کراوس آسٹریا کے مشہور دانش ور کا قول ہے:" کرپشن جسم فروشی سے بھی بدترین ہے ۔جسم فروشی سے ایک انسان کی اخلاقیات تباہ ہوتی ہیں جبکہ کرپشن پوری قوم کا اخلاق تباہ کرڈالتی ہیـ"بلاشبہ پاکستان میں عدم تحفظ ، انتشار ،عدم استحکا م کی بنیادی وجہ کرپشن ہے۔کرپشن ہی ملکی معیشت اور سیاست کو تباہ کرنے اور عدم استحکام سے دو چار کرنے کی وجہ بنی ۔ صدروں ،وزیراعظموں ، وزیروں اور گورنروں سے لے کر ملکی اداروں کے سربراہاں تک ،سربراہان سے ایک معمولی سرکاری ملازم تک کرپشن میں ملوث نظرآتے ہیں ۔سارے معاشرے کا اخلاق کرپشن کے ہاتھوں تباہ ہوچکاہے۔ایک اندازے کے مطابق پانچ ہزار ارب کی سالانہ کرپشن ہورہی ہے۔ گویا دس سے بارہ ارب روپے یومیہ کرپشن ہورہی ہے ۔ قانون یہ ہے کہ آمدنی اگر 42,000 یا اس سے زیادہ ہو یا پانچ لاکھ سالانہ ہورہی ہوتو انکم ٹیکس ریڑن فائل کرنا واجب ہوتا ہے لیکن اسمبلیوں میںبیٹھے 70 فیصد اراکین نے اپنی ٹیکس ریڑن فائل تک نہیں کیں۔ آئین کے مطابق جو آدمی اپنی آمدنی چھپائے اسے دوسال کی سزائے قید ہے یا جرمانہ ہے ۔قانون بنانے والے خود قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔
ملک میں ارباب اختیار کی کرپشن اور لوٹ مار کی وجہ سے ہم پوری دنیا میں نشان تضحیک بن گئے ہیں۔ پاکستان کی حکمران پارٹیوں کا شمار دنیا کی ٹاپ کرپٹ پارٹیوں میں ہوتا ہے۔ کرپشن کی وجہ سے ہمارا طرز حکمرانی ناکام ، ہماری سیاست ناکام ،ہماری تعلیمی نظام پسماندہ،صحت ناکام ، سیاست وخود مختاری خطرے میں،ملکی معیشت ناکام ، سماجی و معاشی نظام ناکام، پوری قوم کی سماجی و اخلاقی حالت تباہ اور میرٹ کا نظام مفلوج ہوچکاہے۔ گویا کرپشن اور بددیانتی کی وجہ سے ریاست میںبسنے والا ہر عام آدمی بنیادی حقوق سے محروم ہے۔کرپشن سے ارباب اختیار عوام کے حقوق غضب کرنے کی سفاکانہ کاروائی کررہے ہیں۔غریب اور متوسط گھرانوں پر بجلی،پانی اور فون کے بلوں میں ٹیکسوں کی بھرمار کرکے ان کا خون نچوڑاجاتا ہے۔ ان ٹیکسوںسے حاصل ہونے والی کثیر رقم حکمرانوں کے بے جاپروٹوکول پر خرچ کی جاتی ہے۔ریاست میں مراعات یافتہ طاقتور طبقے کی بد دیانتی کا یہ عالم ہے کہ اداروں کے سربراہان اپنے من پسند افراد کو تعینات کرتے ہیں تاکہ یہ ان سے غیر قانونی اور بددیانتی پرمبنی کام کرواسکیں۔ کوئی سرکاری اور جائز کام بغیر رشوت اور سفارش کے ممکن ہی نہیںرہا۔دیانت دار اور محنتی بیوروکریٹس کو کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے ۔کرپشن کی وجہ سے نوجوان طبقے کا مستقبل تباہ ہوچکاہے۔نوجوان اور غریب طبقہ مایوسی، کسمپرسی اور انتشار کا شکار ہوکے خودکشیاں کرنے پر مجبور کردیا گیا ہے ۔ملک کے معاشی و ثقافتی معاملات کو کرپشن سے زوال پذیر کرنے میں حکمران اشرفیہ کا بنیادی اور کلیدی کردار ہے۔ذاتی ضروریات کے لیے حکومتی مشینری کا استعمال جائز قرار دیا جاچکا ہے ۔ اگر ارباب اختیار کرپشن کو جائز سمجھتے ہیںتو انھیں آئین میں ہمیشہ کی طرح اپنی من پسندترمیم کرتے ہوئے کرپشن سے متعلق شقوں کو ختم کر دینا چاہیے یا کرپشن کو ہدیہ ، نذرانہ یا شکرانہ کا نام دے دینا چاہیے۔
پاکستان میں وسائل اور قابلیت کی کمی نہیں لیکن سب کچھ کرپشن کی نذر ہورہا ہے ان کے احتساب اور گرفت سے نہ جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ کا تقدس پا مال ہوتا ہے ۔جمہوریت ،پارلیمنٹ اور ریاست کو خطرہ صرف ان کی کرپشن سے ہے۔کرپشن کایہ سلسلہ اول روز سے جاری ہے۔ لیکن پنپتے پنپتے اب یہ پورا درخت بن چکاہے جس کی جڑیں سارے ملک میں پھیل چکی ہیں۔جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں حالات اس کے بر عکس ہیں۔وہاں عام آدمی پر ٹیکسوں کا بے جا بوجھ نہیں ڈالا جاتا ۔ عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقم عام آدمی کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے خرچ کی جاتی ہے۔عوام کا پیسہ عوام کی امانت سمجھ کر عوام پر ہی خرچ کیا جاتا ہے۔ وہاں کرپٹ حکمرانوں کو عبرت ناک سزائیں دی جاتی ہیں ۔وہاں حکومت عام آدمی کو امن و امان صحت ،روزگار ،جانی اور مالی تحفظ اور تمام بنیادی ضروریات فراہم کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کا راز شائد یہ ہے کہ وہاں چیک اینڈ بیلنس کا نظام مضبوط ہے اور ادارے خود مختار ہیں۔جبکہ پاکستان میں عوام مہنگائی ، بے روزگاری ،غربت ،دہشت گردی اور ٹیکسوں کے بوجھ اٹھانے کے ساتھ ساتھ غیر ملکی فرضوں کا بوجھ اٹھانے پر بھی مجبور ہے۔ احتساب کا جو سلسلہ اب پاکستان میں شروع کیا جاچکا ہے یہ ایک خوش آئندقدم ہے ۔لیکن اس کے ثمرات سمیٹنے کے لیے ضروری ہے کہ احتساب کے اس سلسلے کو جاری رکھا جائے۔ کرپشن کے سرداروں کی آئینی اور قانونی طریقے سے سخت گرفت کی جائے ۔ احتساب کے اس عمل کو فری انیڈ فئر ، بلا امتیاز و بلاتفریق اور مستقبل بنیادو ں پر اآگے بڑھایا جائے۔ کرپشن سے لوٹی گئی دولت ملکی خزانے میں واپس لوٹائی جائے۔ کرپشن کے خاتمے اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدر آمد یقینی بنایا جائے۔احتساب بلاامتیاز ہونے سے ہی معاشرے میں انصاف اور قانون کے قتل اور دہرے عمل کا ایک اندوہ ناک تاثیر ختم ہوسکتا ہے ۔کرپشن ،وہائٹ کالر جرائم اور سرکاری اختیارات و مرعات کے ناجائز استعمال کے مکمل خاتمے سے ہی عوام کا معیار زندگی بہتر بنایا جاسکتاہے۔اداروں میں شفافیت ،اقرباء پروری کے خاتمے اور میرٹ کو یقینی بنانے کے لیے کرپٹ افسران کی لسٹ تیار کی جائے ۔ایسے افسران اور اداروں کے سربراہان کا احتساب بھی ضروری ہے ۔اداروں میں سے دیانتداراور محنتی افسران کا چنائو کر کے انھیںحساس اور اہم جگہوں پر تعنیات کیا جائے۔لیکن ایسا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مقتدر کرپٹ طبقہ کی سخت گرفت کرکے انتخابی اصلاحات کے ذریعے ہمیشہ کے لیے ان کا راستہ روکا نہیں جاتا ۔ یہ ملک وقوم کی ضرورت ہے جس کا ادراک خود مظلوم عوام کو بھی نہیں۔