مولانا رضوان اللہ پشاوری
حضرت صہیب سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا مومن آدمی کا بھی عجیب حال ہے کہ اس کے ہر حال میں خیر ہی خیر ہے اور یہ بات کسی کو حاصل نہیں سوائے اس مومن آدمی کے کہ اگر اسے کوئی تکلیف بھی پہنچی تو اس نے شکرادا کیا اور اس کیلئے اس میں بھی ثواب ہے اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچا اور اس نے صبر کیا تو اس کیلئے اس میں بھی ثواب ہے ۔( صحیح مسلم)
شکر کے لغوی معنی نعمت دینے والے کی نعمت کا اقرارِ کرنا اورکسی کی عنایت یا نوازش کے سلسلے میں اس کا احسان ماننے کے ہیں۔اصطلاحی طور پر اللہ کے شکر سے مراد اللہ کی بے پایاں رحمت، شفقت، ربوبیت، رزاقی اور دیگر احسانات کے بدلے میں دل سے اٹھنے والی کیفیت و جذبے کا نام ہے ۔انسان جب شعور کی نگاہ سے انفس و آفاق کا جائزہ لیتا ہے تو اسے اپنا وجود، اپنی زندگی اور اس کا ارتقا ء ایک معجزہ نظر آتا ہے ۔وہ اپنے اندر بھوک ،پیاس ، تھکاوٹ اور جنس کا تقاضا پاتا ہے تو خارج میں اسے ان تقاضوں کے لئے غذا، پانی، نیند اور جوڑے کی شکل میں اسباب کو دستیاب دیکھتا ہے ۔وہ دیکھتا ہے کہ ساری کائنات اسکی خدمت میں لگی ہوئی ہے تاکہ اسکی زندگی کو ممکن اور مستحکم بنا سکے ۔ چنانچہ وہ ان اسباب کے فراہم کرنے والے خدا کے احسانوں کو پہچانتا اور دل سے اس کا شکر ادا کرتا ہے ۔چنانچہ اللہ کے شکر کا یہی ابتدائی مفہوم ہے ۔ پھر جوں جوں یہ معرفت ارتقاء پذیر ہوتی ہے تو اس تشکر کی گہرائی اور صورتوں میں ارتقاء ہوتا چلا جاتا ہے ۔
اجتماعی شکر کرنے کی پہلی وجہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں شفقت اور رحمت ہے جو اس نے انسان کے ساتھ کی ہے ۔ صفات رحم و کرم اللہ تعالیٰ کا مخلوق کے ساتھ انتہائی مہربانی، شفقت،نرم دلی اور بخشش کا اظہار ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کیا ، ان میں تقاضے پیدا کئے اور پھر ان تقاضوں کو انتہائی خوبی کے ساتھ پورا کرتے ہوئے اپنی رحمت، لطف اور کرم نوازی کا اظہار کیا۔چنانچہ کبھی وہ مخلوق پر محبت اور شفقت نچھاور کرتا نظر آتا ہے تو کبھی مخلوق کی بات سنتا، انکی غلطیوں پر تحمل سے پیش آتا، انکی خطاؤں سے درگذر کرتا ، نیکو کاروں کی قدر دانی کرتا اور اپنی حکمت کے تحت انہیں بے تحاشا نوازتا دکھائی دیتا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ ایک بندہ جب مشکل میں گرفتا ر ہوتا تو وہ اسکے لئے سلامتی بن جاتا، اسے اپنی پناہ میں لے لیتا، اسکی مشکلات کے سامنے چٹان بن جاتا، آگے بڑھ کر اسکی مدد کرتا اور گھٹاگھوپ اندھیروں میں ہدایت کا نور بن جاتا ہے ۔ یہی لطف و کرم اللہ کا پہلا تعارف ہے جو انسان کو اس کے سامنے جھکاتا، اسکا احسان مند بناتا اور اسے شکر پر مجبور کرتا ہے ۔اجتماعی شکر کی دوسری وجہ خدا کی صفت ربوبیت ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ مخلوقات کو پیدا کرکے ان سے غافل نہیں ہوگیا۔ بلکہ دن رات ان کو ہر قسم کی سہولت فراہم کررہا ہے ۔ وہ سانس کے لئے آکسیجن، حرارت کے لئے سورج کی روشنی، نشونما کے لئے سازگار ماحول، مادی ضروریات کی نمو و و تکمیل کے لئے غذا اور ذائقے کی تسکین کے لئے انواع و اقسام کے میوے اور پھل بنا کر اپنی ربوبیت و رزاقیت کا اظہار کررہا ہے ۔اسی طرح وہ ایک نومولود کو ماں کے پیٹ میں ایک سازگار ماحول اور رز ق فراہم کرتا، دنیا میں آتے ہی ماں کی گود میں اسکی نشونما کا بندوبست کرتا اور دنیا کے ماحول کو اس کی خدمت میں لگادیتا ہے ۔
اجتماعی شکر کے ساتھ ساتھ انفرادی طور پر شکر کرنے کی بھی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر بندے کے ساتھ انفرادی معاملہ کرتے اور خاص طور پر اسے اپنی نعمتوں سے نوازتے ہیں تاکہ اسے شکر کے امتحان میں ڈال کر آزمائیں۔انفرادی طور پر شکر کرنے کے درج ذیل مواقع یا وجوہات ہوسکتی ہیں:
٭… ماں باپ کا سایہ سر پر موجود ہونے پر اللہ کا شکر گذار ہونا۔اولاد میں کثرت یا حسب منشاء اولاد کے حصول میں کامیابی پر اللہ کا شکر گذار ہونا۔
٭… مال و جائیدا د میں فراوانی پر شکر ۔ یعنی کاروبار میں برکت اور مال ، مویشی کی دیگر صورتوں میں فراوانی پر اللہ کا شکر ادا کرنا۔
٭…بہتر اور اعلی ٰمیعار زندگی پر تشکر ۔ یعنی ایسی زندگی جس میں مادی و روحانی دونوں پہلوؤں سے سکون حاصل ہو۔
٭…صحت مند زندگی پر تشکر ۔ صحت میں تمام اعضاء کی سلامتی، بیماری سے حفاظت، یا بیماری سے صحتیابی، کسی بھی جسمانی معذوری سے مبراء ہونا وغیرہ شامل ہیں۔
٭… تعلیم میں اضافے پر شکر گذار ہونا۔ اچھے حافظہ اور عقل پر شکر گذار ہونا۔اور غیر معمولی صلاحیت ،ظاہری عزت و شہرت حاصل ہو نے پر تشکر کرنا۔
٭… کسی مصیبت یا بیماری سے نجات پانے پر شکر گذار ہونا۔اسی طرح کسی گناہ سے بچنے پر یا نیکی کرنے پر شکر کا اظہار کرنا۔
شکر کے اظہار کیلئے ان تمام نعمتوں کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کیلئے امتحان بھی رکھا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے ایک شخص کے لئے آسانیاں اور نعمتیں رکھی ہوئی ہیں اور وہ بحیثیت مجموعی جسمانی، روحانی ، نفسیاتی یا دیگر تکالیف سے محفوظ ہے ۔اگر کسی شخص پر نعمتوں کی بارش ہورہی ہو تو اس کا نفسیاتی اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ ان نعمتوں کو خدا کی رضا سمجھ بیٹھتا ہے اور وہ اس مغالطے میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ اللہ اس سے راضی ہے ۔ حالانکہ نعمتوں کا اس دنیا میں عطا کیا جانا آزمائش کے اصول پر ہے ناکہ خدا کی رضا اور ناراضگی پر۔لہٰذا اللہ تعالیٰ ہمیں تکبر سے بچے رہنے کی بھی ہدایت فرماتے ہیں۔