حاجی لعل دین انصاری نقشبندی
(ایم اے۔ ایم ایڈ)
ارض پاک کے مشہور صنعتی شہر گوجرانوالہ سے تقریباً پچیس میل مغرب میں ’’حضرت کلیانوالہ شریف‘‘ کے نام سے ایک قدیم قصبہ آباد ہے جس کو قریۃ اولیاء کہا جاتا ہے۔ آٹھ سو سال پرانا قصبہ کئی بار حادثات ِزمانہ کی زد میں آیا۔مگر اللہ کے فضل سے آج بھی آباد ہے۔ سلطان الاولیاء حضرت پیر سید نور الحسن شاہ بخاریؒ جیسی ہستی نے کھجوروں کی جھنڈ میں اسی جگہ کو رشد و ہدایت کیلئے اپنا مرکز بنایا۔حضرت سید نور الحسن شاہ بخاریؒ نے بروز بدھ بوقت نصف شب 30 جنوری 1889ء اس عالم شہود پر ظہور فرمایا۔ سید قربان علی شاہ جنہوں نے آپ کی پیدائش سے قبل اہل خانہ کو اس کی نوید سنائی تھی ،کے فرمان کے مطابق آپ کا اسم گرامی ’’نور الحسن‘‘ رکھا گیا۔ آپ بچپن ہی سے غیر معمولی ذہین‘ زیرک اور محنتی تھے اور اپنے والدین کا دل سے ادب کرتے۔آپ کے والد گرامی حضرت سید غلام علی شاہ بخاریؒ خدا شناس انسان تھے جنہوں نے عبادت و ریاضت میں رزق حلال کی جستجو کو کبھی فراموش نہ کیا ۔ کاشتکاری بھی کی،سرکاری ٹھیکیداری بھی اور خوش نویسی بھی سیکھی مگر ان تمام کاموں کو جلد ہی خیرباد کہہ دیا۔
جب آپ نے اپنے برادر اکبر کے ساتھ کاشتکاری شروع کی تو اسی دور میں اعلیٰ حضرت شرقپوریؒ کوٹلہ شریف کو جاتے ہوئے آپ کی زمین سے گزرے اور یہاں ٹھہر کر فرمایا مجھے یہاں ایک عزیز کی خوشبو آتی ہے ۔ایک مرتبہ آپ نے اپنے برادر اکبر سید حسین شاہ بخاری کے ہمراہ زمین کے تبادلہ کے سلسلہ میں حضرت شیر ربانیؒ کی بارگاہ میں حاضری دی۔ اعلیٰ حضرت نے ایسی توجہ فرمائی کہ اس نظر کرم کا سارا واقعہ والدہ ماجدہ کو سنایا۔آپ فرماتے ہیں کہ والدہ ماجدہ سے اجازت لے کر میں دوبارہ اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اعلیٰ حضرت نے حجام کو بلا کر آپ کی لبوں کو سنت مطہرہ کے مطابق بنانے کا حکم دیا حجام نے سنت کے مطابق کر دیں تو اعلیٰ حضرت نے فرمایا ’’شاہ جی ہم نے تمہارے دل کی صفائی کر دی ہے‘‘ اس کے بعد آپ کو سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں داخل کر لیا۔ حضرت پیر سید نور الحسن شاہ بخاری نے بیعت ہونے کے بعد آپ تمام زندگی مرشد باکمال کے ساتھ گزار دی حتیٰ کہ اعلیٰ حضرت کے آخری سفر (کشمیر) وقت بھی آپ ہمراہ تھے۔
اعلیٰ حضرت شیر ربانی نے ایک دفعہ دینی مدارس کے لئے معائنہ ٹیم تشکیل دی اور حضرت پیر سید نور الحسن شاہ بخاریؒ کو اس ٹیم کا سرپرست مقرر فرمایا آپ کی قیادت میں اس وفد نے کئی مدارس کا دوہ کیا حتیٰ کہ بریلی شریف اور دیوبند بھی گئے۔آپ دو قومی نظریہ کے زبردست حامی اور موید تھے ۔ پیر سید نور الحسن شاہ بخاریؒ نے اعلیٰ حضرت شیر ربانیؒ کے وصال 1928ء کے بعد اشاعت اسلام اور سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کی ترویج اور ارتقاء کا فریضہ سنبھالا خواص و عام‘ امیر و غریب قریب و بعید کے لوگ تیزی سے آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہونے لگے ۔آپ سنت رسولؐ پر پوری طرح عمل پیرا تھے بڑے بڑے ڈاکو‘ قاتل‘ چور اور گنہگار محض آپ کی زیارت سے تائب ہو گئے۔ آپ ولی کامل اور شیخ طریقت تھے آپ کی کوششوں سے بریلی شریف‘ لاہور‘ لائل پور (موجودہ فیصل آباد) گجرات سے کثیر تعداد میں علماء کرام فارغ التحصیل ہوئے اور آپکی ارادت میں داخل ہوئے۔ آپ صاحب کشف و کرامت بزرگ تھے آپ کی بیسیوں کرامات مشہور ہیں۔ کتاب ’’انشراح الصدور بتذکرۃ النور‘‘ 500 صفحات پر مشتمل آپ کے ارشادات اور کرامات سے بھری پڑی ہے ۔زندگی بھر آپ نے اعلیٰ حضرت شیر ربانی شرقپوریؒ کا مشن زندہ رکھا عقیدت مندوں کو سنت مصطفویؐ کے سانچے میں ڈھالنے اور انہیں شریعت نبوی کے روشن اصولوں کا پابند بنا کر منزل مقصود تک پہنچایا۔
آپ کی اولاد کل میں سید محمد باقر علی شاہ بخاریؒ آپ کی عملی تصویر تھے اس کے علاوہ دو بیٹیاں اور اور دوسرے صاحبزادے حضرت سید محمد جعفر علی شاہ بخاریؒ تھے۔ آپ نے 84 سالہ زندگی میں بطور سجادہ نشین 62سال گزارے حضرت پیر سید نور الحسن شاہ بخاریؒ کی تاریخ وصال 21 نومبر 1952ء بمطابق 3 ربیع الاؤل 1372ھ ہے۔ آپکی نماز جنازہ میں وقت کے اکابر شیوخ سینکڑوں علماء فضلاء اور ہزاروں مسلمانوں نے شرکت کی۔ آپ کا مزار بلاشبہ مرجع خلائق ہے ہر سال نومبر میںآپ کا عرس منایا جاتا ہے۔ اس مرتبہ آپ کا سالانہ عرس 18/19 نومبر کو منایا جا رہا ہے کیونکہ 22/23 نومبر کو اعلیٰ حضرت شیر ربانی کا عرس مبارک ہے۔