ینگون، ڈھاکہ (بی بی سی+ این این آئی+ اے این این) بنگلہ دیش نے میانمار کے ساتھ ایک معاہدہ طے کر لیا ہے جس کے مطابق میانمار میں فوجی کارروائی کے دوران لاکھوں کی تعداد میں نقل مکانی کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کو واپس بھیجا جائیگا۔ بنگلہ دیش کا کہنا ہے یہ پہلا قدم ہے۔ میانمار نے کہا ہے کہ وہ روہنگیا کو ’جلد از جلد‘ واپس لینے کیلئے تیار ہے۔ امدادی اداروں نے روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کی ضمانت کے بغیر ان کی زبردستی واپسی کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے۔ خیال رہے کہ روہنگیا مسلمان بے وطن اقلیت ہیں جنہیں عرصہ دراز سے میانمار میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ اگست میں میانمار کی ریاست رخائن میں برمی فوج کے مظالم کے بعد لاکھوں روہنگیا مہاجرین نے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں نقل مکانی کی تھی۔ بنگلہ دیش اپنے عوام کو دکھانا چاہتا ہے کہ روہنگیا کو مستقبل رہائش نہیں فراہم کی جائیگی جو حالیہ نقل مکانی سے پہلے ہی چالیس ہزار روہنگیا مسلمانوں کی میزبانی کر رہا ہے۔ دوسری جانب برما کے حکام اور خاص طور ہر رہنما آنگ سان سوچی کو اس بحرن کے حل کیلئے بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے۔ دوسری جانب پوپ فرانسس میانمار کے فوجی سربراہ کے ساتھ روہنگیا مسلمانوں کے معاملہ پر ملاقات کریں گے۔ میڈیارپورٹس کے مطابق اْن کے دورہ میانمار کا آغاز پیرسے ہوگا۔ ہمسایہ ملک بنگلہ دیش روانگی سے کچھ ہی دیر قبل پوپ سینئر جنرل مِن آنگ ہلینگ سے ملاقات کریں گے۔ میانمار کے کارڈنل چارلس بْو نے پوپ کو اِس بات پر قائل کیا ہے کہ وہ اپنے شیڈول میں جنرل کے ساتھ ملاقات کا اضافہ کریں۔ بْو نے پوپ کو اِس بات کا بھی مشورہ دیا اپنے دورے میں وہ روہنگیا کی اصطلاح استعمال نہ کریں۔ اس خوف کی بنا پر کہ اِس سے اکثریتی کمیونٹی بودھ میں اشتعال بڑھ سکتا ہے۔ معاہدے کے مطابق مہاجرین کی واپسی کا عمل دو ماہ کے اندر شروع ہوجانا چاہیے۔ معاہدے میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا ہے کہ تین ہفتوں کے اندر ایک مشترکہ ورکنگ گروپ تشکیل دیا جائے گا تاکہ مہاجرین کی واپسی کے عمل کو تیز تر کیا جاسکے۔دوسری جانب میانمار کی وزارت محنت میں تعینات مستقل سیکرٹری میانت کیانگ کا کہنا ہے کہ ہم بنگلہ دیش سے واپس بھیجے جانے والے روہنگیا مہاجرین کو واپس لینے کے لیے تیار ہیں تاہم مہاجرین کو واپسی سے قبل ایک مخصوص فارم پر کرنا ہوگا۔ بنگلہ دیشی وزیر خارجہ ابوالحسن محمود علی اور میانمار کی رہنما سانگ سوچی کے درمیان ہونے والی ملاقات میں معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ میانمار حکومت کا کہنا ہے کہ حالیہ ڈیل دونوں ملکوں کے درمیان 1993-1992 میں طے پانے والے معاہدے پر ہی مبنی ہے۔ اس معاہدے کے تحت میانمار کی حکومت صرف ان مہاجرین کو ہی واپس ملک میں داخل ہونے کی اجازت دینے کی پابندی ہے جو ماضی میں حکومتوں کی جانب سے جاری کردہ شناختی دستاویز ظاہر کرنے میں کامیاب ہوں گے۔