چندہ کا عذاب

مکرمی! 50سال پہلے تک چندے کا لفظ معاشرے کے لئے اجنبی تھا مگر اب تو یہ لفظ مذہب کے نام پر ضرورت سے کہیں زیادہ استعمال ہو رہا ہے ۔ بلکہ اب تو کاروبار بن چکا ہے۔دین اسلام میں بھیک یا چندہ کا کوئی تصورنہیں ہے۔بے شک حضور نبی کریم ؐ نے ایک بار کفار اور مشرکین مکہ سے جہاد کا سامان خریدنے کے لئے صحابہ اکرام سے ضرور چندہ مانگا تھا لیکن کسی مسجد یا مدرسہ کی تعمیر کے لئے انہوں نے ہاتھ کبھی بھی نہ پھیلایا تھا۔حرمین شریفین کی توسیع کا کام بھی عرصہ سے ہورہا ہے یہ لاکھوںکا نہیں بلکہ کھربوں ڈالروں کا منصوبہ ہے خدام حرمین شریفین نے کسی اسلامی ملک سے کوئی چندہ نہیں مانگا ۔ لیکن پاکستان میں ہر گلی کوچے میں مسجد بن رہی ہے مسجد کی بنیاد بعد میں ڈالی جاتی ہے چندہ کے لئے سپیکر کسی قریبی مکان کی چھت پر ، درخت پر یا بانس پر پہلے لگا دیا جاتا ہے ۔ مسجد کی تعمیر کے لئے تو چندہ کی گنجائش ہے مخلوق خدا کو تو فرضی مزاروں اوران کے عرسوںکے لئے گھر گھر جا کر چندہ مانگنے والوں نے عذاب میں مبتلا کیا ہوا ہے…(فتح محمد ، موسیٰ خیل میانوالی)

ای پیپر دی نیشن