لاہور(اپنے نامہ نگار سے ، نمائندہ خصوصی) چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ عدلیہ کی آزادی جتنی اہمیت کی حامل ہے اتنی ہی اہمیت پولیس کی آزادی کی ہے اور جرائم کنٹرول کرنے کیلئے محکمہ پولیس کا آزاد ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ عدلیہ کی آزادی ضروری ہے ۔ انہوںنے مزیدکہاکہ بطور چیف جسٹس میری ترجیح رہی ہے کہ عدالت میں پیش ہونے والے پولیس افسران واہلکاروں کی عزت نفس مجروح نہ ہو اور میں یہاں یہ بات بتانا چاہتاہوں جوکہ شاید پہلے کسی کے علم میںنہیں کہ کچھ عرصہ قبل دوران سماعت پولیس افسر کے ساتھ غیر مناسب رویہ اختیار کرنے پر ایک ہائی کورٹ کے جج کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل میں ٹرائل ہوا اور جج کو سزا بھی دی گئی۔ انہوں نے کہاکہ سابقہ چیف جسٹس کی طرف سے بنائی گئی پولیس ریفارمز کمیٹی کے کام کو بطور جج اور وکیل اپنے ذاتی تجربہ کی روشنی میں آگے بڑھایا ہے اور اس کیلئے تمام صوبوں کے انسپکٹرز جنرل کا بھرپور تعاون حاصل رہا ہے جس کے لئے انکے شکر گذار ہیں ۔ انہوں نے مزیدکہاکہ میں جوڈیشل ایکٹوازم کا قائل نہیں کیونکہ جب کسی بھی واقعہ پر انتظامیہ اور متعلقہ افسران نہ صرف فوری طورپر متحرک ہوں بلکہ اداروں کے سربراہان سمیت دیگر متعلقہ افسران کی طرف سے فوری ایکشن اور کارروائی کا آغاز ہوجاتا ہے تو پھر سوموٹو کی ضرورت ہی نہیں رہتی بلکہ ایسے موقعوں پر سوموٹو نوٹس اداروں کی کارروائیوں کو متاثرکرتا ہے ۔ انہوں نے مزیدکہاکہ انصاف کی فراہمی کیلئے تفتیشی افسران کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے یہ انکی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کے مطابق طے کی گئی مدت میں چالان عدالت میں پیش کریں اور جھوٹی گواہی کو کسی ریکارڈ کا حصہ نہ بنائیں اور جھوٹی گواہی کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی کی جائے ۔ انہوںنے مزیدکہا کہ عدالت نے جھوٹی گواہی کے حوالے سے واضح کر دیا ہے کہ یہ کسی صوررت قابل قبول نہیں اوراب تک جھوٹی گواہی کی بنیاد پر 15جھوٹے گواہان کے خلاف کارروائی کی گئی ہے اور آئندہ کسی بھی مقدمے میں اگر کسی تفتیشی افسر نے جھوٹے گواہ پیش کئے تو اسے بھی اس جرم میں برابر کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا ۔ انہوں نے مزیدکہاکہ تفتیشی افسر کا کام مقدمے کے حقائق تک پہنچنا ہے نہ کہ مدعی کے موقف یعنی ایف آئی آر کو درست ثابت کرنا ہے، مقدمے کی حقیقت اور سچائی کی تہہ تک پہنچنا اور عدالت کو حقائق سے آگاہ کرنا ہی تفتیشی افسر کا اصل کام ہے ۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ عدلیہ سے مقدمات کا بوجھ کم کرنے اورایف آئی آر کے فور ی اندراج کے لیے ہر ضلع میں ایس پی کمپلینٹس تعینات کئے تھے جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئے ہیں ایس پی کمپلینٹس نے تقریباً ایک سال سے کم عرصے میں ایک لاکھ بیس ہزار شہریوں کی شکایات سنیں جن میں سے 95 فیصد شہریوں کی شکایات پر کارروائی عمل میں آئی یا وہ ایف آئی آر کے اندراج سے قبل ہی مطمئن ہوگئے جس سے عدالتوں پر بھی مقدمات کے بوجھ میں واضح کمی آئی ہے اور اس عرصہ کے دوران ہائی کورٹس میں ایف آئی آرکے اندراج کی رٹ پٹیشنز میں 15فیصد جبکہ ضلعی عدالتوں میں 30فیصد کمی آئی ہے جو کہ یقیناً قابل تعریف نتیجہ ہے جس پر محکمہ پولیس داد تحسین کا مستحق ہے ۔ انہوںنے مزیدکہاکہ نظام تفتیش کی خامیوں کو تلاش کرنے اور انہیں دور کرنے کیلئے عدلیہ کے حکم پر قائم کی گئی ڈسٹرکٹ اسیسمنٹ کمیٹیز ایسے کیسز جن میں ملزمان کو ضمانتیں مل گئیں یا وہ بری ہوگئے ہوں کا جائزہ لینے کے بعد اپنی سفارشات مرتب کریں کہ تفتیشی نظام کی کن خامیوں کے باعث ملزمان کو ضمانتیں مل گئیں یا وہ بری ہوگئے اور یہ سفارشات تفتیشی افسران سے شئیر کی جائیں۔ آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ یہ بات میرے لئے انتہائی قابل مسرت ہے کہ ملک میں فوری انصاف کیلئے بنائی گئی ماڈل کورٹس کے قیام سے قتل اور منشیات جیسے سنگین مقدمات کو نمٹانے میں بہت مدد ملی ہے، ان عدالتوں نے189دنوں میں24523مقدمات نمٹائے بلکہ عدلیہ کیلئے یہ بات نہایت اطمینان بخش ہے کہ پاکستان کے متعدد اضلاع میں قتل کا ایک مقدمہ بھی زیر التواء نہیں ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اسی طرح چیک ڈس آنر کے مقدمات میں کافی تاخیر نظر آتی رہی ہے جس سے شہریوں کے مسائل اور پریشانیاں یقیناً محتاج بیان نہیں تھیں جس پر عدلیہ نے ایسے مقدمات کو اپنی ترجیح بنایا تو گذشتہ کچھ عرصے میں ایسے مقدمات کے ٹرائلز کے ذریعے100کروڑ سے زائد کی رقم حقیقی مالکان کو واپس دلوائی گئی جو یقیناً باعث اطمینان حقیقت ہے کیونکہ جب ملزم کو یہ پتہ ہوگا کہ مقدمے کا فیصلہ جلد ہوجائے گا تو پھر لوگ جرم کرنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچیں گے جس سے جرائم میں بھی واضح کمی ہوگی ۔ چیف جسٹس نے مزیدکہاکہ سینئر افسران، جونیئر افسران کی طرف سے ٹرانسفر، پوسٹنگ کیلئے کسی بھی قسم کے بیرونی دبائو کے استعمال پر ماتحت افسر کے خلاف سو ل سروس قانون کے مطابق مس کنڈکٹ کی کارروائی کو یقینی بنائیںاور سفار ش کرنے والا اگر کسی سرکاری عہدے پرفائز ہے تو اسکے خلاف شکایت ثبوت کے ساتھ نیب کو بھجوائی جائے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سنٹرل پولیس آفس کے دورے کے موقع پر پولیس افسران سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سنٹرل پولیس آفس آمد پر پولیس کے چاک و چوبند دستے نے چیف جسٹس آف پاکستان کو سلامی پیش کی جس کے بعد چیف جسٹس نے پولیس میوزیم کا دورہ کیا جہاں ڈی آئی جی لیگل جواد احمد ڈوگر نے انہیں پنجاب پولیس کی تاریخی ورثے اور ریکارڈ میں محفوظ نادر دستاویزات کے متعلق بریفنگ دی ۔ ڈی آئی جی آئی ٹی ذوالفقار حمید نے چیف جسٹس کو پنجاب پولیس کے آئی ٹی پراجیکٹس اور جدید پولیسنگ کے حوالے سے کئے گئے اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق پنجاب پولیس کے ورکنگ سسٹم کواپ گریڈ کیا گیا ہے۔ پولیس میوزیم کے دورے کے بعد چیف جسٹس نے پولیس افسران سے خطاب بھی کیا۔ آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز خان نے کہاکہ پنجاب پولیس شہریوں کو انصاف کی فراہمی اور زیر التواء کیسز کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے عدالتو ں کو ہر ممکن معاونت فراہم کررہی ہے۔ تقریب کے اختتام پر آئی جی پنجاب نے چیف جسٹس آف پاکستان آصف کھوسہ، سینئر جج سپریم کورٹ جسٹس گلزار احمد اور کنوینئر پولیس ریفارمز کمیٹی افضل علی شگری کو پنجاب پولیس کی جانب سے یادگاری سوینئرز بھی پیش کئے۔اس سے قبل سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان کی زیر صدارت ریفارمز کمیٹی کا اجلاس ہوا، اجلاس کے دوران پولیس اصلاحات کے بارے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔ چیف جسٹس نے عدالتوں میں اندراج مقدمہ کی درخواستوں کی تعداد میں اضافہ پر تشویش کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اندراج مقدمہ کی درخواستوں کے اضافہ سے عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بڑھ چکا ہے۔ پولیس اصلاحات پر فوری عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ تھانہ میں مقدمات کے بروقت اندراج کے اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔انہوں نے پولیس کمپلینٹ سیل میں موصول شکایات کے فوری ازالہ کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ تفتیش کے معیار کو بہتر کرنے سے متعلق اقدامات یقینی بنایا جائے۔ ملزموں کی بریت ،اور ضمانتوں سے متعلق کیسز پر جواب بروقت جمع کرایا جائے۔اجلاس میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج مسٹرجسٹس گلزار احمد ، وفاقی سیکرٹری قانون ڈاکٹر رحیم اعوان، آئی جی اسلام آباد عامر ذوالفقار، آئی جی آزاد کشمیر صلاح الدین خان اور آئی جی گلگت بلتستان ثناء اللہ عباسی ، آئی جی پنجاب عارف نواز اور آئی جی سندھ سید کلیم امام ، آئی جی بلوچستان محسن حسن بٹ اور آئی جی کے پی کے محمد نعیم اعوان ، ڈی جی ایف آئی اے اعجاز حسین نے بھی شرکت کی۔ اے پی پی کے مطابق تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ میری پہلی ترجیح رہی ہے کہ عدالت بطورعدالت ہی کام کرے،ہمیں یقینی بنانا ہے کہ عدالتیں انصاف کی فراہمی یقینی بنائیں۔ جب بھی ملک میں کوئی مسئلہ عوامی توجہ حاصل کرتا تو سوموٹوکی توقع کی جاتی ۔ کسی میں گواہی دینے کی ہمت نہیں تو انصاف نہ مانگیں، تہیہ کرلیں کہ ہم نے جھوٹی گواہی کونہیں ماننا، انصاف کرنا مقصد نہیں بلکہ قانون کے مطابق انصاف کرنا ہمارا مقصدہے۔