1 ہم نے اپنے سابق کالم میں امریکی صدر ٹرمپ کے متعلق لکھا تھا ، ’’ہو سکتا ہے یہ آخری کالم ہو۔‘‘ مطلب یہ تھا کہ اس کی شکست نوشتہ بردیوار تھی اور تجزیے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہ تھی۔ ٹرمپ میڈیا سے ہمیشہ شاکی رہا ۔ خاص طور پر اسے CNN اور نیو یارک ٹائمز سے تو خدا واسطے کا بیَر تھا۔ برہنہ گفتار تو تھا ہی ، وہ انہیں کرپٹ میڈیا کہتا۔ ذرائع ابلاغ کے اس وسیع سمندر میں اسے صرف ایک جزیرے میں پناہ ملتی تھی اور وہ ’’فاکس نیوز‘‘ کا نیٹ ورک تھا۔ وہ وقتاً وقتاً اس KNIGHT ERRANT کو کمک پہچاتا رہتا تھا۔
جب اس نے بھی الیکشن سے قبل لکھ دیا۔ ’’حضرت اب کے پگڑی سنبھالنا مشکل ہو جائے گا‘‘ تو ٹرمپ نے حیرت اور غصے کے ملے جُلے جذبات کے ساتھ کہا۔ ’’You Too, BRUTUS‘‘
حیرت اس بات پر نہیں ہوتی کہ ٹرمپ الیکشن ہار گیا ہے ۔ حیرانگی یہ ہے کہ 2016ء میں منتخب کیسے ہو گیا تھا! طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہار کر بھی یہ ہار ماننے سے انکاری ہے ۔ برس ہا برس سے یہ دستور چلا آ رہا ہے ک ہارنے والا امیدوار جیتنے والے کو فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مبارک باد دیتا ہے۔اس کی 20 جنوری کو قصرِ صدارت میں آنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اسے وہ تمام معلومات فراہم کرتا ہے جن کا جاننا ملک و قوم کے مفادمیں ہوتا ہے۔ ’’فائونڈگ فادرز‘‘ نے امریکی آئین میں دو ماہ بعد چارج لینے کی شق اس لیے رکھی تھی کہ نومنتخب صدر چارج لینے سے قبل تمام امورِ مملکت سے کما حقہ ہو آگاہی حاصل کرے۔ ٹرمپ نے تعاون سے انکار کر کے ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ کرونا سے اموات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ یومیہ DEATH RATE میں امریکہ سب سے آگے ہے۔ خوش قسمتی ہے ویکسین دریافت ہو گئی ہے۔ وہ بھی امریکہ میں فایرز اور MODERNA کمپنیوں نے اعلان تو کر دیا ہے لیکن اس کی تقسیم لاجسٹکس اور خرید اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک موجودہ صدر یا 20 جنوری 2021ء کو آنے والا صدر اس کی خرید کے لیے ایک خطیر رقم مختص نہ کرے۔ ایک ایسا طریقہِ کار وضع نہ کرے جس سے کم سے کم عرصے میں زیادہ سے زیادہ آدمی مستفیض ہو سکیں۔ ٹرمپ نے ’’نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے‘‘ کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ یہ تو محض Tip of the ICEBERG, ہے دراصل SCOTCHED EARTH POLICY پر گامزن ہے۔ یہ پالیسی سب سے پہلے روسیوں نے نپولین اور بعد میں ہٹلر کے حملے کے وقت اپنائی تھی۔ پسپا ہوتے ہوئے وہ راستے میں سب بستیاں اور شہر جلا گئے تھے تاکہ آگے بڑھتی ہوئی فوجوں کو کھانے پینے اور رہنے کے لیے کچھ نہ ملے۔ شدید برفباری میں جب غنیم کی پسپائی شروع ہوئی تو راستے میں کچھ نہ تھا۔ یہ بھی یہی چاہتا ہے کہ بائیڈن کی راہ میں اس قدر کانٹے اور ’’لینڈمائینز‘‘ بچھا دی جائیں کہ اسے حکومت چلانا دشوار ہو جائے۔ چونکہ ویکسین کے لیے رقم مختص نہیں ہو گی اس لیے بائیڈن کے چارج لینے تک 20/30 لاکھ اموات ہو چکی ہونگی۔ ٹرمپ کہہ سکے گا ’’ہور چوپو‘‘ میں نے نہیں کہا تھا کہ یہ شخص نااہل ہے۔ یہ امریکہ کو موت کے منہ میں دھکیل دے گا! ٹرمپ ایک رپورٹ کے مطابق 2024ء میں پھر الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس لیے اس قسم کے احمقانہ اقدامات کو دُور کی کوڑی لانا بھی کہا جا سکتا ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ اس کے ترکش میں جتنے بھی تیر ہیں یہ سب کو آزمانا چاہتا ہے۔ افغانستان اور عراق سے امریکی فوجوں کا انخلا، ایران کی ایٹمی تنصیبات پر ہوائی حملہ ، چین سے سائوتھ چائنا سی میں چھیڑ چھاڑ اس کی ترجیحات ہیں۔ جرمنی اور نیٹو افواج کے کمانڈر نے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے ۔ افغانستان سے فوج نکلی تو اشرف غنی حکومت سمندری جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گی۔ ویسے بھی کٹھ پُتلی صدر کو افغانستان کے عوام کی اکثریت صدر نہیں مانتی۔ اسے اور حامد کرزئی کو ملک چھوڑنا پڑے گا۔ عبداللہ عبداللہ شمال میں چلا جائے گا اور جنوب کے ساتھ فوجی تصادم کی تیاری کرے گا۔
داعش مضبوط ہو گی اور وہ دنیا میں پھر سے بڑے پیمانے پر تخریب کاری شروع کر سکتی ہے۔ ایران پر حملے کی صورت میں ایک نہ ختم ہونے والی جنگ شروع ہو جائے گی۔ ایران تاریخی اعتبار سے ا ن ممالک میں نہیں ہے جو ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا رہے گا۔ اگر اس نے ’’سٹریٹ آف ہرموز‘‘ بندکر دیا تو دنیا میں تیل کی ترسیل رُک جائیگی ۔ تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں گی۔ بین الاقوامی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ ایک فردواحد کی منقمانہ روش اور بیمار ذہنیت اقوام عالم کا امن تہس نہس کر دے گی۔ کرونا کی تباہ کاریوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے اسے (DOUBLE GEOPARDY) کہا جائے گا۔
-5 ٹرمپ نے اپنی ہار کے متعلق جتنی دلیلیں دی ہیں سب بودی ہیں اس کی منطق مدقوق ہے۔ ان پر بیک وقت ہنسا اور رویا جا سکتا ہے۔ کچھ یوں گمان ہوتا ہے کہ یا تو اس نے ہماری الیکٹورل سمڑی کا بنظرِ غائر مطالعہ کیا ہے یا اس کے پاکستانی مشیران نے الزام اور ابہام تراشی کے گُر سکھائے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ الیکشن امریکہ میں نہیں ، پاکستان میں ہوئے ہیں۔ ذرا الزامات کی نوعیت تو دیکھیں ! موصوف کا کہنا ہے ’’الیکٹورل فراڈ ہوا ہے ۔ ہمارے پولنگ اسٹیشنوں کے ایجنٹس کو گنتی کے وقت باہر نکال دیا گیا۔ جعلی ووٹ ڈالے گئے۔ اس سلسلے میں مُردوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ پوسٹل بیلٹس میں ہیرا پھیری ہوئی ہے۔ نتائج کا بروقت اعلان نہیں کیا گیا۔ نتیجتاً میں جیت گیا ہوں‘‘ اس سلسلے میں ہمیں ایک پرانا لطیفہ یاد آیا ہے۔ تقسیم سے قبل ایک سِکھ انسپکٹر آف سکولز، معائنہ کیلئے گیا۔ اس نے بچوں کی ذہنی استعداد جاننے کیلئے ایک دلچسپ سوال پوچھا۔ بولا۔ ایک ریل گاڑی پچاسی میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ رہی ہے اس نے 115 میل کا فاصلہ طے کرنا ہے۔ اب بتائو میری عمر کیا ہے۔‘‘ سب بچے حیران رہ گئے لیکن ایک بچے نے ہاتھ کھڑا کر دیا۔ سردار جی نے پوچھا تمہیں جواب معلوم ہے؟ ‘‘ یس سر! بچے نے جواب دیا ، آپ کی عمر 48 سال ہے۔ بالکل درست! اس کو خوش ہو کر بولا۔ تم نے کونسا فارمولا اختیار کیا ہے؟ ’’ویری سمپل‘‘ اطفلک بولا ۔ میرا ایک چھوٹا سوتیلابھائی ہے جو نیم پاگل ہے۔ اسکی عمر 24 سال ہے۔