تاریخ گواہ ہے کہ کوئی قوم یا ملت اپنے سیاسی ، قومی یا مذہبی رہنمائوں کی توہین برداشت نہیں کرتی چہ جائیکہ پیغمبر امن و سلامتی حضور ﷺ کی توہین و تحقیر کرکے دنیا بھر میں بسنے والے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو قلبی و ذہنی اذیت میں مبتلا کیا جائے ۔پیغمبر اسلام ﷺ کی ذات مقدسہ ہر مسلمان کو اپنی جان سے عزیز تر ہے ۔آپ ﷺ کی عزت و ناموس پر کوئی مسلمان سمجھوتہ نہیں کر سکتا ۔دنیا بھر کے امن پسند لوگوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب اقوام عالم انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف باہم متحد کھڑی ہے اور دنیا کی مختلف اقوام اور مذاہب باہمی فاصلے ممکنہ حد تک کم کرتے ہوئے ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں ۔چند نا معقول افراد کا مذموم عمل اس مثبت پیش رفت کے لئے تباہ کن ثابت ہو رہا ہے ۔مسلم دنیا پہلے ہی اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے جہاں وہ ترقی ، امن اور استحکام کی منزل کے حصول کے لئے بیک وقت کئی خطرات اور مشکلات سے بر سرپیکار ہے ۔جیسے دہشت گردی اور انتہا پسندی ہے۔کچھ جہاں ایک طرف مسلم دنیا کو غیر متحمل،متشدد اور انتہا پسند قوم کے طور پر پیش کر نے کا باعث ہے تو دوسری طرف یہ رواداری ، پر امن بقائے باہمی ، بین المذاہب رابطہ اور دنیا بھر میں ہم آہنگی کے فروغ اور امن عالم کے لئے کی جانے والی کو ششوں پر پانی پھیر دینے کے مترادف ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ان قابل مذمت خا کوں نے مسلم دنیا کی اقوام متحدہ کی پالیسیوں کے تحت قیام امن کے لئے کی جانے والی جدو جہد کو بھی شدید خطرے میں ڈال دیا ہے ۔آپ یقیناََاس حقیقت کا انکار نہیں کریں گے کہ انسانی نفسیات اور عوامی جذبات کے لئے یہ ایک فطری عمل ہے کہ تمام جارحانہ اعمال کسی نا پسند دیدہ ، قابل نفرت اور تعصب و عناد پر مبنی رویوں کے باعث ہی جنم لیتے ہیں یہ قابل نفرت خاکے بھی اسی طرح کی ایک مثال ہیں ۔کسی کے جذبات کو مشتعل کرنا اور کسی مقدس ہستی سے وابستہ محبت اور احترام کے احساسات کی توہین کر کے دائمی اذیت کا باعث بننا ایک گھنائونا فعل ہے ۔یہ در اصل کسی بھی فرد یا قوم کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے ۔مسلمانوں کے نزدیک رسول اللہ ﷺ اور قرآن حکیم کے ساتھ ساتھ تمام صحائفِ آسمانی اور تمام انبیاء کرام بشمول حضرت موسی ؑ و حضرت عیسی ؑقابل صد احترام ہستیاں ہیں جن کے لئے تمام اہل ایمان کے دل میں محبت اور احترام کے جذبات پائے جاتے ہیں ۔یہ ہستیاں اہل ایمان کا مرکز و محور اور ان کے اجتماعی و انفرادی وجود کی اساس ہیں جن کی کسی بھی نوع کی اہانت سنگین ترین عمل ہے ۔یہ حقیقت صرف مسلم امّہ کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ تمام مذاہب کے پیرو کار کے لئے یکساں ہے ۔جہاں تک آزادی اظہار رائے کا تعلق ہے ،ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بنیادی انسانی حقوق میں سے ہے لیکن انسانی وقار کی حفاظت کے ساتھ جسے نہ صرف امریکی آئین اور قانون میں بلکہ حقوق انسانی کے عالمی اعلامیہ (Universal Declaration of Human Rights)، قانون حقوق انسانی (BILL OF Rights)اور بنیادی انسانی حقوق کے تمام ممالک کی دستا ویزات میں تحفظ فراہم کیا گیا ہے ،جس طرح آزادی اظہار رائے بنیادی انسانی حقوق میں سے ہے ، اسی طرح انسانی وقار کی حفاظت بھی بنیادی انسانی حق ہے جس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا ۔عالمی دساتیر اور قوانین ایسے رویوں کی حوصلہ
شکنی کرتے ہیں جو انسانی وقار کو مجروح کرنے کا باعث ہوں ، حتی کہ امریکی دستور کی آٹھویں ترمیم انسانی وقار کے تحفظ کو اس حد تک یقینی بناتی ہے کہ اس ترمیم کی رو سے:کسی کو ایسی کوئی بھی سزا نہیں دی جا سکتی جس کی شدت اور انداز انسانی وقار کے منافی ہو۔اس تناظر میں کسی انسانی رویے کوکیونکر اس امر کی اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ کسی کی اہانت اور بے توقیری کا سبب بنے ۔اقوام متحدہ کے سابق جنرل سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے کہا تھا :’’ میں آزادی اظہار رائے کے حق کا احترام کرتا ہوں لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ حق قطعََا بھی مطلق نہیں ہے۔یہ حق احساس ذمہ داری اور دانش مندی کے ساتھ مشروط ہے ‘‘۔سابق برطانوی وزیر خارجہ جیک ا سٹرا نے کہا تھا : ’’ہر اس شخص کو آزادی اظہار رائے کا حق حاصل ہے اور ہم اس کا احترام کرتے ہیں لیکن کسی کو بھی توہین کر نے یا بغیر کسی سبب کے اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ہر مذہب کے لئے کچھ قابل حرمت امور ہوتے ہیں لہذا یہ درست نہیں کہ آزادی اظہار رائے کے نام پر عیسائیوں کی تمام مقدس رسوم اور عبادات پر ہر طرح کی تنقید کی جاتی رہے اور نہ ہی اس کی کوئی گنجائش ہے کہ یہودی ، ہندو یا سکھ مذہب کے حقوق اور مقدس رسوم کو موردالزام ٹھہرایا جائے ۔نہ ہی ایسارویہ مذہب اسلام کے حوالے سے اختیار کیا جانا چاہیئے۔ہمیں اس طرح کی صورتحال میں عزت و احترام کو برقرار رکھنے کے لئے احتیاط کرنا ہوگی ۔‘‘امریکی محکمہ ء خارجہ کے سابق ترجمان کرٹس کوپرنے کہا : ’’ ہم سب اظہار رائے کی آزادی کے حق کا خوب احترام کرتے ہیں لیکن اسے صحافتی ذمہ داری سے ماورا ء نہیں ہونا چاہیئے۔ مذہبی یا نسلی نفرت کو اس آڑ میں بھڑکانے کا عمل قابل قبول نہیں ہو سکتا ۔‘‘سابق فرانسیسی وزیر خارجہ فلپ ڈوسے بلیزی نے کہا تھا :’’ آزادی اظہار رائے کے قانون پر عمل برداشت ، عقائد اور مذاہب کے احترام کی روح کے ساتھ ہونا چا ہیئے جو ہمارے ملک کے سیکو لرازم کے بنیادی اساس ہو ۔‘‘آج اس امر کی ضرورت ہے کہ اس خوف ناک اور پریشان کن صورتحال کے خاتمے کے لئے فوری اقدامات کیئے جائیں ورنہ یہ امن عالم کے لئے سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔ایسے حالات میں جب بھی مسلمانوں کے عقیدہ کے انتہائی مقدس پہلوئوں کی تضحیک کی جائے گی یا حضورﷺ کی ذات مبارکہ کی اہانت ہوگی تو اس کا رد عمل بھی لازمََابہت شدید ہوگا ۔یہ بات باعث حیرت ہے کہ مغربی اور یورپی اقوام کو جہاں دہشت گردی کی لعنت سے حفاظت کے لئے آزادی ء رائے کے اظہار پر پابندی روا ہے ، وہاں اسی آزادی رائے کے حق کے نام پر ایسے اہانت انگیز اقدامات کے ذریعے مسلمانانِ عالم کے جذبات اور احساسات کو نہ صرف مجروح کیا جا رہا ہے بلکہ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو اپنے غیر قانونی اقدامات کے لئے منطقی جواز فراہم کیے جا رہے ہیں ۔بظاہر آزادی اظہار رائے کے حق کا بہت غلغلہ ہے لیکن دنیا کا کوئی مذہب بھی مقدس ہستیوں ، رسولوں، پیغمبروں اور اللہ کے کلام کی اہانت کی اجازت نہیں دیتا ، حتی کہ کتا ب مقدس(The Bible)کا عہد نامہ قدیم (Old Testament)اور عہد نامہ جدید(New Testament)دونوں حضرت موسی ؑ اور حضرت عیسی ؑکی توہین سے منع کرتے ہیں ۔ اگر ہم ان گستاخانہ خاکوں، فلموں کے معاملے کو انسانی نفسیات کے تناظر میں دیکھیں تو حقیقت یہ ہے کہ اس کے پیش کار ، ہدایت کار اور نشر کندگان مختلف ممالک کے دستور میں موجود آزادی اظہار رائے کے حق کے تحفظ کو اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے غلط استعمال کر رہے ہیں ۔فی الحقیقت وہ اپنے اپنے ملکی مفادات کو بھی خطرات سے دوچار کر رہے ہیں ۔