شرح سود 7فیصد برقرار، مہنگائی بڑھی ، کرونا کی دوسری لہر معاشی نمو کیلئے خطرہ: سٹیٹ بنک

کراچی (کامرس رپورٹر) زری پالیسی کمیٹی نے آئندہ دو ماہ کیلئے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا ہے اور 7 فیصد شرح سود برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان کی زری پالیسی کمیٹی کا اجلاس گزشتہ روز ہوا جس میں نئے پالیسی ریٹ، کرونا سے معیشت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات، مہنگائی اور اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سمیت مختلف امور پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ سٹیٹ بنک کی کمیٹی کے مطابق ستمبر 2020ء میں منعقدہ گزشتہ اجلاس کے بعد ملک میں بحالی کے عمل نے بتدریج زور پکڑا جو مالی سال 2021ء میں 2 فیصد سے کچھ زائد شرح نمو توقعات کے عین مطابق ہے۔ ستمبر اجلاس کے بعد سے معاشی بحالی بتدریج زور پکڑ رہی ہے۔ کرونا کی دوسری لہر معاشی نمو کیلئے خطرات پیدا کررہی ہے۔ مالی سال 2021ء میں مہنگائی کی شرح 7 سے 9 فیصد رہنے کا امکان ہے اور کاروباری احساسات مزید بہتر ہوئے ہیں۔ ادائیگیوں کا توازن بہتر ہوا ہے، برآمدات میں بہتری آئی ہے۔ تاہم کمیٹی کے مطابق کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ سے پیدا ہونے والے خطرے کے پیش نظر اس منظر نامے کو خطرات درپیش ہیں اور نمو میں کمی کے خطرات ایک مرتبہ پھر منڈلانے لگے ہیں۔ زری پالیسی کمیٹی نے مہنگائی کی شرح میں اضافے کی تصدیق کرتے ہوئے اس کی وجہ غذائی اشیا کی قیمتوں کا بڑھنا بتایا لیکن ساتھ ساتھ امید ظاہر کی گئی کہ رسد کے دباؤ میں عارضی کمی کا امکان ہے۔ کمیٹی نے مجموعی طور پر نمو اور مہنگائی کے منظرنامے کو لاحق خطرات کو متوازن قرار دیا۔ اس سلسلے میں کہا گیا کہ زری پالیسی کا موجودہ مؤقف بحالی کو تقویت دینے کے ساتھ مہنگائی کی توقعات کو منجمد اور مالی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے مناسب ہے۔ لہٰذا آئندہ سہ ماہی میں نمو کو بڑھانے کے لیے وبا کے دوران دی گئی نمایاں مالیاتی، زری اور قرضہ جاتی تحریک جاری رہنی چاہیے۔ کمیٹی نے حقیقی شعبے کے حوالے سے تبصرے میں کہا کہ تعمیرات اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں کی بدولت حالیہ اعداد وشمار معاشی بحالی مزید مضبوطی اور وسعت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مالی سال 2020 کے مقابلے میں پیٹرولیم مصنوعات اور گاڑیوں کی اوسط فروخت کے حجم کی سطح پہلے سے بڑھ چکی ہے اور سیمنٹ کی فروخت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ مالی سال 2021 کی پہلی سہ ماہی میں بڑے پیمانے پر اشیا سازی میں بحالی کا عمل جاری ہے اور 4.8 فیصد سالانہ توسیع ہوئی حالانکہ گزشتہ سال اس میں 5.5 فیصد کمی دیکھی گئی تھی جبکہ مینوفیکچرنگ کے 15 میں سے 9 شعبے اضافے کے عکاس ہیں جن میں ٹیکسٹائل، غذا اور مشروبات، پیٹرولیم مصنوعات، کاغذ اور گتہ، ادویہ، کیمیکل، سیمنٹ، کھاد اور ربڑ شامل ہیں۔ زری پالیسی کمیٹی کے مطابق کرونا کے اثرات کو کم کرنے کے لیے حکومت کی فراہم کردہ تحریک، پالیسی ریٹ میں کٹوتیوں اور سٹیٹ بینک کے بروقت اقدامات سے بحالی میں مدد مل رہی ہے اور ان اقدامات کی بدولت سہولت فراہم کی گئی۔ ملازمین کی برطرفیوں میں کمی ہوئی اور سرمایہ کاری کی ترغیب دی گئی۔ زراعت شعبے کی بات کی جائے تو کپاس کی پیداوار میں متوقع کمی کی تلافی اسی صورت میں ہی ہو سکتی ہے کہ جب اہم فصلوں میں نمو اور امدادی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے گندم کی بلند پیداوار، کھاد اور کیڑے مار ادویہ پر اعلان کردہ اعانت باقاعدہ فراہم کی جائے۔اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی پابندی کی وجہ سے خدمات کے کئی شعبوں بشمول تھوک پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں البتہ خوردہ تجارت اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں کو تعمیرات، مینوفیکچرنگ اور زراعت میں تیزی سے بالواسطہ فائدہ پہنچنے کی امید ہے۔ پالیسی کمیٹی کے مطابق بیرونی شعبے مسلسل بہتری کی جانب گامزن ہے اور پانچ برسوں سے زائد عرصے میں پہلی مرتبہ مالی سال 2021 کی پہلی سہ ماہی کے دوران جاری کھاتہ فاضل رہا، مالی سال کے ابتدائی چار مہینوں میں مثبت اشاریوں کے بعد اکتوبر تک مجموعی کھاتہ بڑھ کر 1.2 ارب ڈالر کے فاضل تک پہنچ گیا جبکہ اس سے قبل اسی دورانیے میں 1.4 ارب ڈالر خسارہ ہوا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ ستمبر اور اکتوبر میں برآمدات بحال ہوئیں اور مضبوط ترین بحالی ٹیکسٹائل، چاول، سیمنٹ، کیمیکلز اور دوا سازی میں ہوئی، ترسیلات زر میں 26.5 فیصد مضبوط نمو ہوئی البتہ ملکی سطح پر گرتی ہوئی طلب اور تیل کی کم قیمتوں کے باعث درآمدات اب تک قابو میں رہی ہیں۔ اس حوالے سے انکشاف کیا گیا کہ ایم پی سی کے گزشتہ اجلاس کے بعد پاکستانی روپے کی گرتی ہوئی قدر میں ساڑھے 3 فیصد اضافے میں مدد ملی اور سٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 12.9 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں جو فروری 2018 کے بعد بلند ترین سطح ہے۔ زری پالیسی کمیٹی کے مطابق کارکردگی کی بنیاد پر بیرونی شعبے کے امکانات میں مزید بہتری آئی ہے اور مالی سال 21 کے لیے جاری کھاتے کا خسارہ اب جی ڈی پی کے 2 فیصد سے کم رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔حکومت کا سٹیٹ بنک سے نئے قرض نہ لینے کا عزم برقرار ہے اور پست نان ٹیکس محاصل کے باوجود مالی سال 21 کی پہلی سہ ماہی میں بنیادی توازن جی ڈی پی کا 0.6 فیصد زائد رہا جو گزشتہ برس کے اسی عرصے کے آس پاس ہے البتہ بھاری سود کی ادائیگیوں کے سبب جب شرح سود میں حالیہ کمی کے فوائد پہنچنے لگے تو مجموعی بلند بجٹ خسارے میں کمی آنی چاہیے۔ مجموعی صورتحال کو دیکھا جائے تو حقیقی پالیسی ریٹ کچھ منفی رہا، نجی شعبے کی نمو معتدل رہی تاہم اس کی ہر ماہ کی بنیاد پر نمو کرونا وائرس سے پہلے کے رجحانات کی جانب گامزن ہے جبکہ سٹیٹ بنک نے کرونا کے بعد عارضی اور ہدف کی حامل ری فنانس سکیمیں متعارف کراکر نجی شعبے کو قرضے کی فراہمی بڑھانے میں مدد دی۔زری پالیسی کمیٹی کے مطابق عمومی مہنگائی جنوری سے اب تک بڑی کمی کے بعد گزشتہ 2 ماہ میں 9 فیصد کے قریب رہی جس کی وجہ رسد کے مسائل کے سبب منتخب غذائی اشیا کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہے جبکہ آئندہ چند ماہ میں حکومت کی جانب سے کیے گئے رسد کے مسائل حل کرنے کے لیے متعدد اقدامات سے امید پیدا ہوئی ہے کہ موافق اساسی اثر اور معیشت کی اضافی گنجائش کی بدولت مہنگائی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔

ای پیپر دی نیشن