اخبارات اور نیوز ٹی وی چینلز کے ساتھ اب سوشل میڈیا پر بھی ایسی ایسی دل خراش خبریں پڑھنے،سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں جنھیں پڑھ ،سُن اور دیکھ کر ہر اس شخص کا دل کانپ جاتا ہے جس کے اندرانسانیت کا ذرا سا بھی درد ہے۔ کچھ ماہ پہلے کی ایسی ہی ایک دل دہلادینے والی خبر ہے جوممکن ہے آپ کی نظروں سے بھی گزری ہواوراگر کسی وجہ سے آپ اب تک اس خبر سے ناواقف ہیں توآپ ابھی اسے گوگل پر ’’دل دہلا دینے والا واقعہ‘‘ کے نام سے سرچ کر سکتے ہیں۔البتہ کمزور دل حضرات کو میرا مشورہ ہے کہ وہ اس اندوہناک خبر کی تفصیل جاننے سے پرہیز ہی کریں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے۔بصورتِ دگر اس خبر کا تفصیلی احوال جان کر اُن کے دل پر بھی وہی قیامت گزر سکتی ہے جو آزمائش کی اُن گھڑیوں میں اس خبرکے مرکزی کردار پر گزری ہوگی۔ اب اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ذرا یہ خبر پڑھیں جو کچھ یوں ہے کہ’’جہلم کے علاقہ کالا گجراں کے رہائشی سجاد کی دوسری شادی اس کے روحانی پیر نے سوہاوہ کے گائوں میں اپنے مریدوں کے ہاںرشیدہ بی بی سے کروائی جو رخصتی کے بعد خواجہ سرا عبدالرشید نکل آیا۔جس پر اس بنارسی دھوکہ دہی کے خلاف دولہا نے ایک مقامی اخبار کے رپورٹرکو اپنا’’دُکھڑا‘‘ سناتے ہوئے بتایاکہ اس کی پہلی بیوی کی وفات پندرہ ماہ پہلے ہوئی جس میں اس کے دو بچے ہیں جن کی دیکھ بھال کے لئے اس کے پیر نے اس کا رشتہ اپنے مریدوں کے ہاںرشیدہ نامی لڑکی سے کروایا۔ جس کے بعد وہ مقررہ تاریخ کو بینڈ باجے کے ہمراہ بڑی دھوم دھام سے اپنی بارات لیکر سوہاوہ گیا اور خوشی خوشی دلہن لے کر واپس آیا لیکن اس وقت اس کے ہوش اُڑ گئے جب اس پر شادی کی پہلی رات ہی یہ انکشاف ہوا کہ اس کی دلہن عورت نہیں بلکہ مردانہ ہڈ پیروں والا ایک خواجہ سرا ہے ۔ اگلے روز اس نے گھر آئے مہمانوں اور محلے داروںکے سامنے شرمندگی سے بچنے کے لئے مجبوراََ ولیمہ بھی کیا مگر اس کے بعد اس نے اپنے ہونے والے اس’’ نئے نویلے دلہن ‘‘ کاترلا منت کر کے اسے واپس اس کے میکے بھیج دیا‘‘۔یہ خبر اپنے متن کے اعتبار سے جہاں انوکھی ہے وہاں انتہائی دل شکن بھی ہے مگر اس کے باوجود ممکن ہے اس واقعہ میں دن دیہاڑے لُٹ جانے والے دولہے کے دل پر گزرنے والی قیامت کا اندازہ کیے بغیر چند نادان پنجابی محاورے’’چڑیاں دی موت تے گنواراں دا ہاسا‘‘ کے عین مطابق خواہ مخواہ دولہے کی بیچارگی کا ٹھٹھا اُڑائیں۔ مگر ایسے کسی بھی شخص سے میں یہ مودبانہ گزارش کروں گا کہ وہ چند لمحوں کے لئے اپنی تمام تر شوخی اور بے حسی کو ذرا دیر کے لئے ایک طرف رکھ کر پوری ایمانداری سے یہ بتائے کہ ہمارے ہاں عام طور پرہونے والی کسی بھی شادی کے ابتدا سے تکمیل تک کے تمام تر مراحل جن میں کسی وچولے کی وساطت سے رشتے کے لئے دونوں خاندانوں میں ابتدائی بات چیت، مختلف شرائط کی بنیاد پر رشتے کے لئے فریقین کی باہمی رضامندی، مایوں،مہندی، بینڈ باجے کے ساتھ بارات کی روانگی ، اللہ اللہ کر کے نکاح، سالیوں کی جوتا چھپائی اور دودھ پلائی جیسی اچھے خاصے خرچے اور وختے والی تمام رسموں سے گزر کر شادی والی رات اگر اُس پر یہ کھلے کہ اس کی نئی نویلی دلہن عورت نہیں ایک خواجہ سرا ہے تو اُس کی کیا حالت ہوگی۔مجھے چشم تصور میں یہ سوچ کر ہی رونا آرہا ہے کہ بیچارے دولہا میاں نے حجلہ عروسی میں کن ارمانوں سے فلم ’’کبھی کبھی‘‘ کا گیت گنگناتے ہوئے عروسی جوڑے میں ملبوس خواجہ سرا کو اپنی دلہن رانی سمجھ کر اُس کا گھونگھٹ اُٹھایا ہوگا۔ اس کے بعد اس خیال سے تو مجھے اور بھی وحشت ہورہی ہے کہ گھونگھٹ اٹھانے پر اُس خواجہ سرا نے کس طرح اپنے کھردرے ہاتھوں اور بڑھتی ہوئی شیو والے میک اپ زدہ چہرے کو اپنے مجازی خدا سے چھپانے کے لئے شرم و حیا کی بھونڈی سی اداکاری کرتے ہوئے سمٹنے کی ناکام کوشش کی ہوگی ۔ میرا کلیجہ تو یہ سوچ کر بھی منہ کو آرہا ہے کہ قسمت کے مارے دولہے نے کیسے پیار بھرے مکالمے دہراتے ہوئے اپنی دلہن رانی کے ساتھ اکٹھے جینے مرنے کی قسمیں کھائی ہوں گی۔ اورپھر جب عین موقع پر دولہا میاںپر یہ جان لیوا انکشاف ہوا ہوگا کہ اس کے سپنوں کی رانی اس کی دلہن کوئی عورت نہیں ایک خواجہ سرا ہے تو وہ بیچارہ ’’ماہی بے آب‘‘ کی طرح کیسے اس’’ حجلہ مایوسی‘‘ میں تڑپا ہوگا ۔ خیر اس’’ شب جبر‘‘ میں اس مسکین دولہے پر جو قیامت گزری اس کے لئے ہم اس کے حق میں صرف صبر کی دعا ہی کرسکتے ہیں لیکن اس بدترین واقعہ سے ہم سب بھی ایک سبق ضرور سیکھ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے روزہ مرہ کے کسی بھی چھوٹے موٹے کام سے لیکر زندگی کے اہم ترین فیصلوں تک عمل کرنے سے پہلے کسی’’وچولے‘‘ یا ’’پیر‘‘ پر اندھا دھند اعتبار کرنے بجائے اپنی عقل اور شعور کے مطابق اس کی اچھی طرح چھان بین ضرورکر لینی چاہیے بصورتِ دگر بعد میںخواہ کوئی شخص ہو یا ادارہ کسی کے ساتھ بھی اس واقعہ جیسی مضحکہ خیز صورت حال پیش آسکتی ہے۔