میرا کالم کتابوں کے تبصرے کے لیے نہیں البتہ بعض ایسی کتابیں موصول ہو جاتی ہیں کہ فہرست پرایک نظر ڈالنے کے بعد اس پر لکھنے کو من کرتا ہے۔ ’’مرقع گجرات‘‘ بھی ان اہم کتابوں میں شامل ہے، جس کے مصنف شیخ عبدالرشید ہیں۔ یہ کتاب مجھے گزشتہ ماہ مل گئی تھی۔ میں نے چیدہ چیدہ اس کا مطالعہ بھی کر لیا۔ کالم لکھنے میں تاخیر اس لیے ہوگئی کہ میں ڈینگی کا شکار ہو گیا۔ ایک ماہ سُرت ہی نہ رہی۔ دو ہفتے میرا کالم بھی شائع نہیں ہوا۔ اس کتاب میں تاریخ گجرات کی جھلک پیش کی گئی ہے۔ شیخ عبدالرشید نے ڈوب کر لکھا ہے۔ میں اس کتاب کو پڑھنے کے بعد Trans میں رہا۔ صحیح معنوں میں تحقیقی، ادبی ، علمی اور معلوماتی تصنیف ہے۔
یہ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے۔ مذہب اور روحانیت، تعلیمی و سماجی مصلحین، علم و ادب، صحافت، فن اور فنکار، رومانوی دادستانیں، کامیاب بزنس مین۔ ’’پیش لفظ‘‘ میں مصنف شیخ عبدالرشید لکھتے ہیں ’’مرقع گجرات، میں گجرات کی بیالیس نامور شخصیات کا تذکر ہ ہے۔ ان میں خاص طور پر تقسیم ہند سے پہلے کے گجرات کی نامور مسلم، سکھ اور ہندو مذہبی، سیاسی، سماجی، صحافتی اور گیت نگار شخصیات کا ذکر مساوی تفاخر کے ساتھ کیا گیا ہے۔ گجرات کے ایسے بہت سے فرزند ہیں جن کا ذکر محض مذہبی اختلاف کی وجہ سے نہیں کیا جاتا۔ ان ہستیوں نے اس خطہ کے عوام کے لیے تعلیمی اور سماجی میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دئیے تھے۔ وہ سب اب وفات پا چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مرنے والوں کی قومی خدمات کا اعتراف بھی ایک فرض کفایہ ہوتا ہے جو لکھنے والے پورے معاشرے کی طرف سے ادا کرنا ہے۔ وہ اصحاب فکر و فن جن کے افکار و اعمال سے حیات منور ہوئی۔ ایسے لوگ مذہب و نسل کی تمیز کے بغیر انسانوں کا مشترکہ سرمایہ افتخار ہوتے ہیں۔ ان کے تذکرے سے تاریخ ثروت مند ہوتی ہے‘‘ شیخ عبدالرشید کے ان خیالات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں، یہی وجہ ہے کہ ’’مذہب و روحانیت‘‘ کے باب میں جہاں انھوں نے سائیں کرم الہی (کانواں والی سرکار) فرد فقیر اور پیر سید نصیب علی شاہ گردیزی کے بارے میں مضامین تحریر کیے ہیں، اسی باب میں گیانی چیت سنگھ کے بارے میں مضمون شامل ہے۔ علم و ادب کے باب میں غنیمت کنجاہی، صحافت کے باب میں شیر محمد اختر، ریاض بٹالوی، فن اور فنکار میں رفیع پیرزادہ، عنایت حسین بھٹی اور رومانوی داستانوں میں سوہنی مہینوال کا قصہ بھی شامل ہے۔ صحافت، فن اور فنکار ابواب میں بعض ایسی شخصیات پر شیخ عبدالرشید کی تحریریں شامل ھیں، جن سے میری ملاقاتیں رہیں اور ان شخصیات پر میں لکھ چکا ھوں جو میری کتابوں میں شامل ھیں۔ صحافت کے باب میں ریاض بٹالوی میرے کولیگ رہے ہیں۔ فن اور فنکار کے باب میں عنایت حسین بھٹی کے بارے میں مضمون شامل ہے۔ بھٹی صاحب سے میری متعدد ملاقاتیں رہیں۔ ان کے ہمراہ لاہور سے پاکپتن اور پھر ملکہ ہانس تک سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ میری داستان حیات ’’میرا عہد جو میں نے لمحہ لمحہ جیا‘‘ میں عنایت حسین بھٹی کے بارے میں میرا مضمون شامل ہے۔ گجرات کے حوالے سے میری دلچسپی اس لیے بھی ہے کہ میں آدھا لاہوری اور آدھا گجراتی ہوں۔ میںپکا لاہوری ہوں مگر 1974ء میں شادی گجرات میں ہونے کی بنا پر آدھا گجراتی ہو گیا۔ کتاب کے شروع میں تاریخ گجرات کی مختصر جھلک بیان کی گئی ہے۔ اس جھلک کی آخری سطریں ہیں ’’گجرات ہماری قومی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ کہیں اس کی جڑیں اس کے کچے گھڑے میں ہیں جو کسی بھی لمحے ڈوب سکتا ہے۔ کہیں اس کی جڑیں شریف کنجاہی کے ’’جگراتے‘‘ میں ہیں جو محبت کرنے والی عورت کے دکھ کی آواز ہے۔ کہیں اس کی جڑیں پیر فضل گجراتی کے ’’قطبی تارا‘‘ میں ہیں جو آسمان ادب پر چمک رہا ہے۔ کہیں اس کی جڑیں ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم کے راگوں میں ہیں جو ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ یہ ساری جڑیں مل کر اہلیان گجرات کی جذباتی اور حسیاتی کائنات تشکیل دیتی ہیں۔‘‘ علم و ادب کے باب میں شیخ مقبول الہی کی شخصیت اور فن کے بارے میں مضمون شامل ہے۔ بریڈ فورڈ (برطانیہ) میں مجھے شیخ مقبول الہی کے ہاں ایک ہفتہ قیام کا موقع ملا۔ انھوں نے وہاں میرے اعزاز میں تقریب منعقد کی۔ وہ جب بھی لاہور آتے، ان سے ملاقاتیں رہتیں۔ انتہائی نفیس، ملنسار اور وضعدار شخصیت ہیں۔ ان کی تحریریں میں اپنے جریدہ ’’سانجھاں‘‘ میں شائع کرتا رہا ہوں۔ شریف کنجاہی سے بزرگوں جیسا رشتہ تھا۔ میری اہلیہ کو انھوں نے منہ بولی بیٹی بنایا تھا۔ مجھے ان کی تصنیفات خرید کر پڑھنا پڑتیں۔ مگر میری اہلیہ کو انہوں نے اپنے دستخط سے ’’جگراتے‘‘ عنایت کی۔ لکھا تھا ’’صفیہ دھی نوں۔ شریف کنجاہی ولوں۔ 1-2-75‘‘ پیش لفظ میں شیخ عبدالرشید نے درست لکھا ہے ’’شاید ان میں سے کوئی مضمون ہمارے نوجوان محققین کے لیے فائدہ مند ہو سکے‘‘ میں سمجھتا ہوں، کوئی مضمون نہیں، متعدد مضامین سے نوجوان استفادہ کر سکتے ہیں۔