ملتان (عارف کالرو سے ) اسلامی اقدار سے دوری‘ عدم برداشت‘ بے راہ روی‘ سوشل میڈیا کا غلط استعمال و ٹی وی ڈراموں میں اخلاقی اقدار کی پامالی‘ غربت‘ مہنگائی و بیروز گاری کے باعث طلاق کی شرح میں خطر ناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے ملتان ڈویژن میں 9 ماہ کے دوران ریکارڈ 3711 طلاقیں رجسٹرڈ (موثر ) کی گئیں سب سے زیادہ طلاقیں 1534 ضلع وہاڑی میں رجسٹرڈ کی گئیں لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ ملتان ڈویڑن کی جانب سے طلاق کے کیسز کی حتمی سماعت کے بعد رواں سال جنوری سے ستمبر 2021 تک موثر( رجسٹرڈ ) کی جانے والی طلاقوں کی ایک رپورٹ کے مطابق 3711 طلاقیں رجسٹرڈ کی گئیں جس میں سے 2648 طلاقیں براہ راست جبکہ 1063 طلاقیں عدالتوں میں خلع کا دعویٰ دائر کر کے لی گئیں ضلع ملتان میں موثر کی جانے والی 868 طلاقوں میں سے 624 براہ راست اور 244 خلع کے ذریعے ضلع خانیوال میں موثر کی جانے والی 1056 طلاقوں میں سے 760 براہ راست 296 خلع کے ذریعے لی گئیں ضلع وہاڑی میں 1534 طلاقیں موثر کی گئیں جن میں سے 1074 براہ راست جبکہ 460 طلاقیں خلع کے ذریعے لی گئیں ضلع لودہراں میں 248 طلاقیں رجسٹرڈ کی گئیں جن میں سے 185 براہ راست اور 63 طلاقیں خلع کے ذریعے لی گئیں جبکہ ہزاروں کیسز ابھی بھی زیر سماعت ہیں جن کے فیصلے ابھی ہونا باقی ہیں۔دریں اثنا ڈویژنل ڈائریکٹر بلدیات سردار محمد فاروق ڈوگر نے بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح پر نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طلاق کے کیسز کی سماعت کے دوران جو سب سے اہم بات سامنے آئی ہے وہ عدم برداشت ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر نوبت طلاق تک آجاتی ہے۔بچوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں والدین کو بچوں کی تربیت پر توجہ دینی چاہیے۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے مرکزی رہنما مولانا زبیر احمد صدیقی نے کہا ہے کہ اہم وجوہات میں عدم برداشت تشدد کا خطر ناک رجحان فحاشی مغربی ڈرامے وفلمیں وتربیت کا فقدان ہے۔ تربیت کو نصاب کا حصہ بنایا جائے حلال چیزوں میں سے اللہ کو سب سے زیادہ جو چیز ناپسند ہے وہ طلاق ہے۔ طلاق ہمیشہ مسنون طریقہ سے دی جائے پہلے ایک طلاق دی جائے اس میں صلح کی صورت میں رجوع کی گنجائش ہوتی ہے۔ جماعت اہلسنت پنجاب کے صوبائی ناظم اعلیٰ علامہ حافظ فاروق خان سعیدی نے کہا کہ طلاق کی شرح میں خطر ناک حد تک دین سے دوری ہے اس کے علاوہ معاشی و معاشرتی و نفسیاتی مسائل بھی وجوہات میں شامل ہیں۔ نئی نسل کی اسلامی اقدار کے مطابق تربیت کی جائے نئی نسل کو بھی چاہیے کہ وہ ایسے فیصلے سوچ بچار کے بعد کریں۔