یکجہتی،وابستگی اور اتحا د واتفا ق کی بر کت فرد اور خاندان کو ہی نعمتو ں سے سر فراز نہیں کرتی بلکہ سما ج اور ریا ست بھی یکجہتی اور اتحاد کی دولت سے خو شحا لی،تر قی اور استحکا م کی دولت سے مالا مال ہو کر مسلسل آ گے بڑ ھتی ہیں۔اتحاد کیلئے کسی خا ص طبقے کی کوشش ضروری نہیں سمجھی جا تی ہے،سوسا ئٹی کا ہر فر د یکجہتی کے چر اغ کو اپنی موجودگی اور وابستگی سے مہمیز کر تا ہے۔
افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر
ہر فرد سے ملت کے مقد ر کا ستارا
اللہ کر یم ہمیں اتفا ق اور اتحاد کی بر کتو ں سے مالا ما ل کر ے آ مین ۔قیام پاکستان سے اب تک کے عرصہ پر طاہرانہ نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ابتدائی گیارہ سالوں میں سیاسی نظام دینے کی بجائے ہم نے ملک مارشل لاء کے سپرد کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ نظام مضبوط نہ ادارے مستحکم اور نہ ہی قومی مفاد اور سیاسی اداروں کی خود مختاری ہمارا مقدر بنی یہی عوامل عوام میں سیاسی شعور کو۔ کفار کرتے ہیں ہم عوام میں کو سیاسی شعور نہ دے پائے زمام اقتدار پر جو براجمان ہوئے جن کے ہاتھوں حکومت کی باگ ڈور آئی انہوں نے اپنی مرضی سے آئین کو اپنے تابع کرنے کی مشق کی اس طرح عوام سیاسی نظام میں یکجہتی پیدا نہ کر سکی انگریز دور میں انگریزی نظام حکومت کا وفادار طبقہ خاص کر مراعات یافتہ تھا اور پاکستان بنتے وقت یہی طبقہ کسی نہ کسی طرح حکومت میں شامل ہوا اور بڑے حکومتی عہدوں پر اسی طبقے کے افراد فائز ہوئے اس طرح ان طبقوں کا سیاسی تسلط قومی یکجہتی اور ہم آہنگی میں رکاوٹ ہے ہمارے ہاں قومی یکجہتی ایک اور رکاوٹ یہ دکھائی دیتی ہے کہ ادارے غیر موثر ہیں عدلیہ ا۔تظامیہ قانون ساز اسمبلیاں اور دیگر سول ادارے مکمل طور پر خود مختار نہیں حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ ان میں بھی تبدیلیاں لائی جاتی ہیں میرٹ کے بغیر تقرری کسی بھی ادارے کو انحطاط کا شکار کر دیتی ہے ہماری بد قسمتی یہ بھی ہے کہ جملہ سیاسی ادارے اکثر اپنی مدت پوری نہیں کر پاتے اور انتظامی اداروں میں بھی سیاسی مداخلت رہتی ہے مطلق العنان حکومتیں نے جمہوریت کے سورج کو طلوع نہ ہونے دیا یہی وجہ ہیکہ جمہوری حکومتوں کی نسبت آمریت کا دور زیادہ رہا پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں اب تک چار مارشل لاء لگ چکے ہیں اسی آمرانہ دور ایسی علاقائی تنظیمیں وجود میں آئیں جنہوں نے علاقائی اور صو بائی سیاست کو فروغ دیاقومی یکجہتی پیدا کرنے کے لئے حکومت کو علاقوں کو مساوی ترقی کے علاؤہ مخصوص طبقوں کی اجارہ داری کا خاتمی قومی اداروں کو مضبوط کرنے معاشی عدم وانصاف کا قیام اور حقیقی جمہوریت کے قیام کو یقینی بنانا ہو گا ۔ ۔آج پا کستا نی سماج میں انتشار کے جو بیج بو ئے جا رہے ہیں اس سے مثا لی سوسا ئٹی میں درا ڑ یں پڑ نا شر وع ہو گئی ہیں،ان خا میوں اور سیا سی غلطیو ں کا خمیا زہ یقینا ملک وقوم کو بھگتنا پڑ ے گاآ پ زرا ما ضی میں جھانکیں !نصف صدی قبل کے حا لا ت پر نظر دوڑ ائیں،آ پ کو پا کستا نی معا شر ے میں انتشار،تنا ئو اور حقوق و فرائض پر اعترا ضا ت کے کا نٹے جا بجا نظر آ ئیں گے۔حق ما نگنا،حق پر قبضہ کر نے اور اپنے حقوق کی جدوجہد جیسے نعروں کا غلغلہ اس شد ت سے بلند کرا یا گیا جس سے قو می وحدت پار ہ پار ہ ہو ئی اور نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت پر منتج ہو ا۔دشمن پہلے یکجہتی پر خاموشی سے حملہ آور ہو تا ہے اور جب آ پ دا خلی سطح پر کمزور ہو ں تو د شمن کو کھل کر کھیلنے کا موقع ملتا ہے۔ مقام شکر ہے کہ آ ج وطن عز یز میں محبا ن پا کستان بیدار ہیں، وہ دشمن کو جا نتے اس کی مذ مو م کارروائیوں سے آ شناء ہیں لیکن د شمن کی طر ف سے چلا ئی ہو ئی ففتھ جنر یشن وار کے تو ڑ کیلئے وہ اس حد تک سر گر م ہیں جن کا تقا ضا وقت اور حا لا ت کر رہے ہیں۔ ہمار ے بڑ ے آج صیح طور پر اور حقیقی معنوں میں متحر ک ہو جا ئیں تو سیا سی اور عوامی سطح پرا نتشار کا معمو لی دھو اں ختم کیا جا سکتا ہے۔اخو ت کے چر اغ میں بڑ ی طا قت ہے اور یہ طا قت ہی مخالفین کے ارداے بھسم کر نے کیلئے کا فی ہیں،بقول حضر ت اقبال
اخو ت اس کو کہتے ہیںچبھے کا نٹا جو کا بل میں
تو ہند وستاں کا ہر اک پیر وجوان بے تا ب ہو جا ئے