سید کبیر علی واسطی جمہوریت کا مجاہد     (2)

اگر اس دن میری بیوی جرات اور بہادری کے ساتھ کھڑی نہ ہوتی تو میں سیاسی میدان میں بڑی ندامت کا سامنا کر رہا ہوتا یہ حقیقت ہے کہ ایک بہادر بیوی شوہر کو بنانے میں بڑا اہم کر دار ادا کرتی ہے۔
بے نظیر دور میں وہ انکے بہت قریبی رفیق بن گئے اور بے نظیر تمام لوگوں سے مشورے کے بعد ان سے آخری مشورہ لیتی تھیں اور پھر فیصلہ کرتی تھیں۔ بینظیر بھٹو نے آپ کو دو مرتبہ پیپلز پارٹی کی طرف سے راولپنڈی سے ٹکٹ جار ی کیا۔ نواز شریف دور میں کبیرعلی واسطی صاحب نے کرپشن کی طرف توجہ مبذول کروائی ، نواز شریف حکومت میں انکو وزیر بننے کو پیشکش کی لیکن انہوں نے انکار کرتے ہوئے اُسی دن چند صحافیوں کو لیکر موٹروے کا دورہ کیا اور موٹر وے کی بہت سی خامیوں کی طرف توجہ مبذول کروائی۔انہوں نے پاکستان کو اقتدار پر فوقیت دے کر محب الوطنی کا ثبوت دیا۔ وہ بہت زبردست سماجی کارکن بھی تھے ، انہوں نے بہت سی مساجد کو مزید بہتر کرنے کے لیے مالی امداد کی اور راولپنڈی کے خواتین کالج سکستھ روڈ میں ایک ہال بھی بنوایا جس کو انہوں نے والدہ ماجدہ کے نام سے منسوب کیاجو آج بھی انیس فاطمہ ہال کے نام سے   موجود ہے۔ انہوں نے اپنے والدین کی بہت خدمت کی اور اپنے والد محترم کو خود اپنے ہاتھوں سے اکثر غسل دیا اور والدہ سے محبت کے اظہار کی وجہ سے اپنے گھر کے باہر "بیت انیس" کنداںکیا ۔
مشرف دور میں الیکشن سے پہلے میر ظفر جمالی کو میں خود بلوچستان ہائوس سے لے کر واسطی صاحب کے گھر پہنچا اور انہوں نے بہت سے صحافی اور سیاسی اقابرین سے ان کی ملاقات کروائی۔ ان کے وزیر اعظم بننے کے بعد آپ کے ان سے سیاسی اختلافات شروع ہو گئے ۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان کے اقدامات سے پارٹی اور پاکستان کو بہت نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے پہلے ان کوسمجھایا مگر مثبت جواب نہ آنے کی صورت میں ان کے تمام اقدامات کو ایک خط میں تحریر کیا اور صدر مشرف کو ارسال کیا اور میڈیا پر بھی جاری کردیا۔ ساتھ ہی ساتھ ظفر اللہ جمالی کی حکومت کو صرف چالیس دن دیے، اسی دوران جمالی صاحب کا فون آیا کہ وہ گھر آنا چاہتے ہیں۔ واسطی صاحب نے اُن کو اپنے گھر آنے کو دعوت دی لیکن وہ جب اپنے مقررہ وقت پر تشریف نہ لائے تو آپ نے ان کو اپنے گھر آنے سے منع کر دیا لیکن اس کے اگلے ہی روز وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی ان کے گھر تشریف لائے اور کہا "سید بادشاہ مجھے معاف کریں"لیکن اب مصالحت کا وقت گزر گیا تھا،ا ن کوچالیس دن کے اندر اندر ہی جانا پڑا۔ ان کے بعد چوہدری شجاعت 45 دن کے لیے وزیراعظم بنے ۔جب چوہدری شجاعت کے بارے میں یہ گمان ہونے لگا کہ اب یہ شاید مزید بھی وزیر اعظم رہنے کی تمنا رکھتے ہیں تو شوکت عزیز صاحب نے واسطی صاحب کو بتایا اور اِن سے مدد کی بھی درخواست کی اور بلا آخر شوکت عزیز وزیر اعظم بن گئے۔
جنرل مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کے نعرے پاکستان فرسٹ اور روشن خیالی سے متاثر ہو کر حقیقی جمہوریت بحالی کی شرط پر پرویز مشرف کی بھر پور حمایت کا اعلان کیا ۔ چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہیٰ کے خود گھر تشریف لانے پر غیر مشروط طور پر  مسلم لیگ ق میں اپنی جماعت کو ضم کر دیا، کچھ عرصے بعد ان کی خدمات کے نتیجے میں انکو پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم کا سینئر نائب صدر اور چیئر مین میڈیا کمیٹی بنا دیا گیا۔ جب پرویز مشرف نے وردی میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو  مرحوم واسطی صاحب نے شدید مخالفت کی اور ایک موقع پر پرویز مشرف کے سامنے بھی اس کا اظہار کیا۔ انہوں نے’’ نوائے وقت‘‘ میں بیان جاری کیا اور صدر کو وردی اتار کر الیکشن لڑنے کا مشورہ دیا ۔ اس بیان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ میں اس وقت ایک سفارت خانے میں تعینات تھا اس وقت کے سفیر نے (جو پرویز مشرف کے ساتھ ایک غیر ملکی دورے پر موجود تھے)سخت الفاظ میں واسطی صاحب کو بیان واپس لینے کے لیے مجھے کہا لیکن میرے پیغام پہنچانے پر انہوں نے بیان واپس لینے سے انکار کر دیا اور یہ کہا کہ یہ اقدام پاکستان میںجمہوریت کے منافی ہے میں ہر گز اس کی حمایت نہیں کر سکتا۔
انہوں نے کبھی بھی اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا اسی وجہ سے مشرف دور میں تین مرتبہ ان کو پارٹی سے نکالاگیا ۔ ان کا ماننا تھا کہ جو لیڈر کمپرومائز کرے وہ کبھی لیڈر نہیں ہو سکتا۔وہ الیکشن 2013سے پہلے ہی پی ٹی آئی کی حمایت کرنا چاہتے تھے لیکن کچھ  احباب کے مشورے پر انہوں نے یہ ارادہ الیکشن کے بعد ملتوی کر دیا۔ 2014 میں خرابی صحت کی وجہ سے سیاسی سر گرمیاں ترک کر دیں۔2017میں بلاول بھٹو سے ملاقات بے نظیر بھٹو کے فرزند کے ناتے کی اور اپنے ان کو پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کی تردید کی۔ 2019میں مسلم لیگ قائد اعظم کے صدر چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات کی اور ان کے گھر میں یہ بات طے کی گئی کہ وہ دوبارہ مسلم لیگ قائد اعظم میں متحرک ہوں گے لیکن کچھ نا گزیر وجوہ کی بنا پر ایسا نہ ہو سکا۔انہوں نے اپنے آخری دنوں میں عمران خان کے متعلق یہ پیشن گوئی کی تھی کہ الیکشن 2023میں عمران خان 2/3اکثریت سے برسر اقتدار آئیں گے۔ وہ عمران خان کو صحیح معنوں میں قوم کا مسیحا سمجھتے تھے۔انکی یہ خواہش تھی کہ میں مسلم لیگی کارکن ہوتے ہوئے وفات پائوں، اللہ نے ان کی خواہش پوری کی۔ وہ مجاہد حقیقی جمہوریت تھے۔(ختم شد)

ای پیپر دی نیشن