گزشتہ دنوںجدہ پاکستان قونصلیٹ میں پاکستان کے وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال جن کا شمار دانشوروں میں کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا ، مسلم لیگ کی گزشتہ حکومت میں بھی وہ وزیر منصوبہ بندی رہے ، منصوبہ بندی کی عملی جامعہ پہنانے کیلئے پانچ سال درکارہوتے ہیں ، انکی بھی ہمیشہ اس وزارت میں پانچ سال رہنے کی خواہش ہوتی ہے تاکہ انکی تجویز کردہ منصوبہ بندی کا ثمر مل سکے افسوس کے انکی خواہش اور محنت رائیگاں جاتی ہے چونکہ ہمارے ملک میں کسی کام کرنے والی حکومت کا پانچ سال رہنے کا رواج نہیں ہے ۔تین سال، چار سال میں چلتا کردیا جاتا ہے کہا جاتا ہے انہیں ملکی حالات درست نہ کرنے ، کرپشن ، ڈیلور نہ کرنے کی وجوہات کی بناء پر ’’حکومت سے نکالا جانا ‘‘ ضروری ہوتا ہے ۔ جدہ قونصلیٹ میں ڈیڑھ گھنٹے کے اپنے پر مغز خطاب میں انہوں نے پاکستان کے حالات اور سیاست پر رائے زنی کی ۔ ابتداء میں انہوںنے فرمایا کہ پاکستان کی معیشت اور ملک کی حالات زار کا سبب تین اہم نکات کے ارد گرد ہے جو مختلف جائزوں پر ہے ، نمبر ایک۔۔ پاکستان میں ہمیشہ سے کرپشن ہے ، نمبر دو۔۔۔سیاسی عدم استحکام ، نمبر تین ۔۔ کہ ملکی حالات کو بہتر طریقے سے مقابلہ کرنے کیلئے اگر سر میںدرد ہے تو پیٹ کے درد کی گولی دی جاتی ہے اور پیٹ میں درد ہو تو سر کے درد کی گولی دی جاتی ہے ، کسی سیاست دان سے یہ تجزیہ سنکر مجھے مجبوری میں سوال کرنا پڑا کہ تجزیے آپکی دانش میں بہتر ہیں مگر میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ پاکستان کی معیشت کی کمزوری، سیاسی عدم استحکام، کرپشن، ڈاکٹر سے غلط مرض کی بہتر گولی لینے میںملک کے بائیس کروڑ عوام کہاں قصور وار ہیں ، آپکے بتائے ہوئے تینوں مسائل سیاست دانوں کی جانب سے ہیں کرپشن بھی اعلی درجات رکھنے والے کرتے ہیں چاہے وہ سیاست دان ہوںیا کوئی بااثر جسے روکنا حکومت کا کام ہوتا ہے اگر وہ خود کرپشن میںملوث نہیں، سیاسی عدم استحکام کی وجہ بھی سیاست دان ہیں ، اورحالات کی بہتری کیلئے ڈاکٹر غلط گولی سیاست دان ہی لاتے ہیںاوروہ ڈاکٹر بھی انکا کا ہی تجویز کردہ ہوتا ہے ۔ وزیر صاحب نے فرمایامختصر جواب میں کہ سیاست دان تو عوام کی حمائت سے اور انکی آراء سے آتا ہے جیسا عوام چاہتی ہے وہ وہی کرتاہے میرے نزدیک یہ جواب پھر عوام کو قصور وار ٹہرانا ہے۔مجھے فیض صاحب کا مصرعہ یاد آیا '' اب شہر میں ہر رند خرابات ولی ہے '' کچھ سمجھ نہیں آ رہا ھے کہ کون کیا چاہتا ہے۔ خلقت خدا، بنیادی ضروریات زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہے اور لوگ زندگی سے تنگ آچکے ہیں لیکن کیا سیاستدان اور کیا بقول نوابزادہ نصراللہ مرحوم ''طالع آزما'' طاقتور لوگ،سب عوام سے کھلواڑ میں، اپنی ڈفلی بجانے میں مصروف ہیں۔حالیہ خرافات کا ذکر کیاجائے تو قومی سطح کا ایک لیڈر جو ملک کا وزیراعظم بھی رہا ہو وہ بغیر تحقیق اور تصدیق کے غیر حقیقی بیانئے پر کام کرے، عوامی اجتماعات میں اپنے ووٹرز کے جذبات کو بھڑکائے، الزامات لگائے، نامناسب ناموں سے پکارتے رہے اب وہ تمام باتوں سے مکر رہے ہیں، بیانیہ بدل رہے ہیں، محاذ آرائی سے بات چیت کی طرف سفر کر رہے ہیں لیکن کیا یہ سب کچھ اتنا آسان ہے، کیا لوگوں کو ہر وقت بے وقوف بنانا معمولی بات ہے، کیا سیاسی ناکامی کی وجہ سے ریاستی اداروں کو دنیا بھر میں متنازع بنانا کسی قومی سطح کے سیاسی قائد کو زیب دیتا ہے۔ کیوں بغیر تحقیق کے ایک ایسا بیانیہ قائم کرنا کہ چند ماہ کے بعد راستہ بدلنا پڑے، کیوں ایسے بیانیے کو فروغ دیا جس کی وجہ سے ملک میں ناصرف سیاسی انتشار پیداب اپنے بیانئے ہر سیاست دان مختلف اوقات میں اپنی خواہشات اور مفادات کے تحت بدلتارہے ان بیانیوںسے خاص طور گزشتہ چھ ماہ سے بین الاقوامی سطح پر بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچا پاکستان کے سیاسی نظام پر سوالات اٹھتے رہے حتیٰ کہ ہمارے ایٹمی ہتھیاروں پر بھی بات ہوتی رہی۔ ان سب سوالات کے جوابات کون دے گا، کب دے گا اور کب لوگوں کو قابل قبول جواب ملے گا۔ یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ ہر دور میں سیاسی قیادت، عسکری قیادت کے ساتھ محاذ آرائی کی صورت حال میں رہی ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ مختلف وقتوں میں تعلقات خراب رہنے کے باوجود سیاسی قیادت نے اداروں کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کیے، میاں نواز شریف اس سلسلے میں سب سے بڑی مثال ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ان کی حکومت ختم ہوئی، مقدمات قائم ہوئے وہ ملک سے باہر گئے طویل عرصہ ملک سے باہر رہے، وطن واپسی ہوئی ان کی جماعت نے انتخابات میں حصہ لیا دو ہزار تیرہ میںمیاں نواز شریف ملک کے وزیراعظم بنے پھر تعلقات خراب ہوئے پھر جیل گئے اور ایک مرتبہ پھر علاج کی غرض سے لندن چلے گئے ، کب واپس آتے ہیں کچھ کہا نہیں جا سکتا حال میں یورپ یاتراء پر چلے گئے اور لگتا ہے کہ برطانیہ کی عدالت میں انکی برطانیہ میںمزید رہائش منظور ہونے کے بعد وہ پھر برطانیہ میں بسیرا کرینگے ، جب تک سو فیصد حالات پاکستان میں انکی مرضی کے ہوئے۔ گزشتہ چند ماہ سے فوج کے سربراہ کی تقرری پر واویلا ہے،اگر قانون اور آئین پر عمل درآمد ہوتویہ کوئی مسئلہ نہیں فوج کا سپاہی سے لیکر متوقع سربراہ تک پاکستان کی فوج ہے کسی اور ملک کے افسر نہیں ، وہ پاکستان کے محب وطن ہیں پھر یہ کیا جھگڑا کہ تاج کون پہنے گا قانون و آئین میں دئے گئے مروجہ طریقہ کار کے ہوتے ہوئے ۔ فوجی ادارے کی سب سے خاص بات ہی میرٹ اور خود احتسابی ہے گذشتہ چند برسوں میں خود احتسابی کے حوالے سے افواجِ پاکستان نے کئی سخت فیصلے کرتے ہوئے افسران کو سخت سزائیں بھی سنائیں۔ اپنے نظام کو بہتر بنانے کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ قیمتی جانیںدینے سےزیادہ میرٹ کہیںنہیں۔ عوام کی خواہش یہ ہوتی ہے اپنے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والوںسے کہ سب سے پہلے معیشت اور لاقانونیت پر قابو پائیں،پاکستان کے دگرگوں معاشی حالات میں پاکستان کے مظلوم عوام کی حالت کیا ہو گی جب مہنگائی 26فیصدسے اوپرجا رہی ہے۔ تقریباً 38 فیصد پاکستانی غربت کا شکار ہیں اورمزید 13فیصد لوگ اس بد ترین غربت کے چنگل میں پھنسنے والے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر دوسرا پاکستانی یعنی 11کروڑ پاکستانی بد ترین افلاس کا شکار ہے یا ہونے جا رہے ہیں۔ایسے میں شہباز حکومت رہے یا عمران خان اقتدارمیں واپس آئیں، آرمی چیف کون لگتا ہے، کون نہیں۔ اس بے رحمانہ معاشی بحران کا چکر ختم ہونے والا نہیں۔ یہ سب سیاسی بونوں اور اداروں کے افلاس کے بس کی بات نہیں ہے۔