جیل ایک ایسی جگہ ہے جہاں انسان خود کو ایک زندہ لاش تصور کرتا ہے، قید و بند کی سختیاں قیدی کو اندر سے کھا جاتی ہیں، غیر انسانی سلوک سے مجرم آدھا مت جاتا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ نفرت جرم سے کریں مجرم سے نہیں۔ اسی سلوگن پر عمل کرتے ہوئے پنجاب کی جیلوں کے نئے آئی جی خاصے متحرک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں لوگوں کی اخلاقی تربیت کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ پنجاب کی جیلوں میں بہت سے ایسے قیدی ہیں جو چھوٹے چھوٹے جرائم میں ملوث تھے لیکن ان کی پیروی نہ ہونے کے باعث وہ جیل سے رہا نہیں ہو پاتے اور ان کے ذہنوں مزید جرم کرنے کی سوچ پروان چڑھنے لگتی ہے۔ اسی لئے میری کوشش ہے کہ ایسے مجرموں کی ذہنی نشوونما کر سکوں جو جیل سے رہا ہو کر مزید جرائم سے دور رہیں اور معاشرے کو امن کا گہوارہ بنا سکیں۔ ملک مبشر احمد خان کا کہنا ہے کہ جیل کے انتظامی امور، قیدیوں اور انکے رشتہ داروں کو پیش آنے مسائل کو حل کرنے کرنا انکی اولین ترجیح ہے۔ اپنے ماتحت سٹاف کے لئے وہ روزانہ آفس میں بیٹھتے ہیں اور ان کے جائز مطالبات مانتے ہیں، جو لوگ انکے پاس دور دور سے آتے ہیں ان کے لئے انھوں اپنا واٹس ایپ نمبر دے دیا ہے تاکہ وہ براہ راست ان سے رابطہ کر سکیں اور غریب اور بوڑھے لوگ سفر کی مشکلات سے بچ سکیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے جو بھی جائز شکایات ہوں انھیں فوری طور پر حل کیا جا سکے۔ قیدیوں کے رشتہ دار اور دوست جو ان سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے بھی ان کی واضح ہدایات ہیں کہ ملاقات کرنے والوں کی عزت و وقار میں کمی نہ آئے اور وہ ایک اپنے قیدی سے خوشگوار ماحول میں ملاقات کر سکیں۔ جب ہمیں کوئی کھانا پسند نہ آئے تو ہم لوگ اکثر مذاق میں یہ کہہ دیتے ہیں کہ آج تو قیدیوں والا کھانا لگتا ہے مطلب یہ ہے کہ جیل کے قیدیوں کے لئے کھانا اچھا نہیں ہوتا انکا معیار ٹھیک نہیں ہوتا۔ وہ چاہتے ہیں جیل کے قیدیوں کے عمدہ معیار کے مطابق کھانا دیا جائے۔ حال ہی میں انھوں نے پنجاب کے تمام جیلوں میں مراسلہ جاری کیا ہے کہ قیدیوں کو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق کھانا فراہم کیا جائے، بیمار مرغی یا خراب گوشت کی فراہمی روکی جائے، جیل سپرنٹنڈنٹس، ٹھیکیداران سے زندہ مرغیاں منگوائیں، قیدیوں کو فراہم کیا جانے والا مرغی کا گوشت جیل ہی میں ذبح کیا جائے، جیل میں مرغیوں کے ذبح خانے کے لئے جگہ مخصوص کی جائے، مرغیوں کی خریداری، ذبح کرنے کے عمل کی ویڈیو بنائی جائے، گوشت کی چیکنگ میڈیکل افسران روزانہ کریں،پچاس ہزار قیدیوں کے لئے ہفتے میں 7 بار چکن فراہم کیا جائے، اس کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت سے منظور شدہ قیدیوں کے ہفتہ وار کھانے کے مینیو پر سختی سے عملدرآمد کیا۔ ریجنل ڈی آئی جیز کو پابند کیا جائے کہ وہ ان سارے معاملات کی انجام دہی کو یقینی بنائیں اور خلاف ورزی کرنے والے افسران و ملازمین کے خلاف کارروائی کے لئے رپورٹ صدر دفتر ارسال کریں، قیدیوں کی خوراک کے معیار اور مقدار پر کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی اور غفلت برتنے والے افسران و ملازمین کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اس کے علاوہ قیدیوں کو سردی کی شدت سے بچاؤ کے لئے بھی کوشاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پنجاب بھر کی جیلوں میں مقید 55057 قیدیوں کو سردی کی شدت سے بچاؤ کے لئے 101872 کمبل مہیا کئے جائیں گے جن میں سے 70703 سرکاری طور پر اور 31169 مخیر حضرات کے تعاون سے مہیا کئے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ 11626 کمبل اضافی سٹاک میں موجود ہیں جو کہ بوقت ضرورت استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ لواحقین کو بھی قیدیوں کو کمبل سمیت گرم ملبوسات دینے کی اجازت ہوگی۔ سردی کی شدت سے بچاؤ کے لیے قیدی بارکس کے باہر پلاسٹک شیٹس بھی لگائی گئی ہیں۔بارکس کے روشن دان اور کھڑکیوں کو اچھے سے بند کیا گیا ہے تاکہ سردی کی شدت سے بچاؤ کیا جا سکے۔اس کے علاوہ پنجاب بھر کی جیلوں میں 729 مفت طبی کیمپوں کا انعقاد بھی کیا ہے۔ یہ کیمپس محکمہ صحت اور مخیر حضرات کے تعاون سے منعقد کیے گئے جن میں ماہر ڈاکٹرز نے اسیران کا علاج کیا۔ فری میڈیکل کیمپوں میں آنکھوں، جلد، ہڈیوں سمیت دیگر مختلف امراض کی تشخیص اور علاج کیا گیا۔
بطور آئی جیل یہ اقدامات قابلِ ستائش ہیں۔ امید ہے وہ اسی طرح متحرک رہیں گے اور عوامی خدمت کے جذبے سے کام کرتے رہے گے۔