اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) ریکوڈک کیس میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان وہ بین الاقوامی قوانین کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرے ورنہ کمپنی پھر عالمی ثالثی فورم پر چلی جائے گی، پاکستان کے نظام انصاف میں بہتری کے لیے بہت اقدامات کیے گئے، نتائج کچھ وقت کے بعد نظر آئیں گے، غیرملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان کے نظام انصاف پر اعتماد کرنا چاہئے۔ ریکوڈک منصوبے میں سرمایہ کار بیرک گولڈ کمپنی کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل مکمل کرلئے۔ سپریم کورٹ میں ریکوڈک صدارتی ریفرنس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔ دوران سماعت معاہدہ بیرک گولڈ کمپنی کے وکیل مخدوم علی خان نے موقف اختیار کیا کہ ریکوڈک منصوبے سے مال جیسے ہی پورٹ پر پہنچے گا پچاسی فیصد ادائیگی ہوجائے گی، ریکوڈک منصوبے کے مال کی بقیہ پندرہ فیصد ادائیگی منزل پر پہنچ کر مارکیٹ ریٹ اور کوالٹی کے مطابق ادائیگی ہوگی، اگر ریکوڈک منصوبے سے کاپر اور سونے کے علاوہ کوئی معدنیات نکلی تو طریقہ کار معاہدے میں درج ہے، اگر ریکوڈک منصوبے سے کوئی نایاب معدنیات نکلی تو حکومت مارکیٹ ریٹ پر خرید لے گی۔ یورینیم اور پلاٹینیم جیسی سٹرٹیجک دھاتیں نکلیں تو پاکستان کو بلامعاوضہ ملیں گی، ریکوڈک منصوبے کی تعمیر پر 7500 جبکہ آپریشنز پر 4000 نوکریاں ملیں گی۔ جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ ریکوڈک منصوبے میں پچاس فیصد شیئرز پاکستان کے ہیں تنازعے سے پاکستان کو بھی اثر پڑے گا، چیف جسٹس پاکستان کے عدالتی نظام اور عالمی نظام انصاف میں بہت فرق ہے، مخدوم علی خان نے کہا بیشتر ممالک نے سرمایہ کاروں کے تنازعات ختم کرنے کے لیے وزارت خارجہ میں قانونی مشیر مقرر کررکھے ہیں، اس معاہدے میں بھی کسی بھی قانونی سقم سے بچنے کے لیے معاہدے میں شفافیت کا خاص خیال رکھا گیا ہے، معاہدے میں پاکستانی حکومت اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا، اگر حکومت یا پارلیمنٹ معاہدے میں غیر ملکی کمپنی کو دی رعایت واپس لینا چاہے تو اسے پبلک کیا جائے گا، کمپنی بین الاقوامی ثالثی عدالت سے رجوع کرنے کا حق محفوظ رکھے گی، ریکوڈک سے نکلنے والی معدنیات کی ایکسپورٹ پر حکومت پاکستان کی مسلسل نگرانی ہوگی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلائل شروع کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ریفرنس میں دوسرا سوال فارن انویسٹمنٹ بل 2022 کے بنیادی حقوق کے متصادم ہونے سے متعلق ہے، آئینی آرٹیکل 144 کے تحت وفاق کا بنائے گئے قانون میں صوبے ترمیم کر سکتے ہیں، جسٹس آفریدی نے کہا حکومت عدالت سے مجوزہ قانون سازی کی توثیق کیوں چاہتے ہیں؟۔ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا عدالت بتا دے کہ کیا پارلیمنٹ کے پاس فارن انویسٹمنٹ کے تحفظ کی قانون سازی کا اختیار ہے یا نہیں؟۔ فارن انویسٹمنٹ بل 2022 مستقبل کی تمام تر سرمایہ کاری پر لاگو ہو گا۔ چیف جسٹس نے کہا حکومت نے معاشی تحفظ بل 1992 بھی منظور کیا تھا جو عدالتوں میں چیلنج نہیں ہوا۔ حکومت اپنے خدشات دور کرنے کے لیے عدالت کیوں آئی ہے؟۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا موجودہ قانون کے تحت کیوں ریکوڈک منصوبے میں چھوٹ نہیں دی جا سکتی؟۔ چیف جسٹس نے کہا سرمایہ کاری سے جڑے تنازعات کو عدالتوں میں کیوں لاتے ہیں؟۔ سرمایہ کاری سے جڑے تمام تنازعات عدالت سے باہر حل کرنے کا طریقہ کار بنائیں۔ کیس کی مزید سماعت 24 نومبر تک ملتوی کردی گئی۔