پنجاب پولیس میں سیاسی تقررو تبادلے ، سپریم کورٹ کا وفاق، صوبائی حکومتوں سے 8 سالہ ریکارڈ طلب 

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کو سیاسی مداخلت پر پولیس افسران کے تبادلہ و تقرریوں پر جواب طلب کر لیا۔ عدالت نے درخواستگزار وکیل کی استدعا پر مقدمہ کا دائرہ وفاق اور دیگر صوبوں تک وسیع کرتے وفاق اور صوبوں سے گزشتہ آٹھ سالوں میں محکمہ پولیس میں آٹھ سال کی ٹرانسفر پوسٹنگ کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔ سپریم کورٹ میں پنجاب پولیس میں سیاسی مداخلت کے خلاف درخواست پر سماعت چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے کی۔ دوران سماعت درخواستگزار کے وکیل شہزاد شوکت نے موقف اختیار کیا کہ پنجاب میں محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت پر افسران کے تبادلے اثر و رسوخ سے ہوتے ہیں جبکہ حالیہ دنوں میں ڈی پی او لیہ کا تبادلہ بھی سیاسی مداخلت پر ہوا جس کی خبریں میڈیا پر ہیڈ لائنز بنی۔ پولیس نے مزاحمت کی لیکن بالآخر خاتون ڈی پی او لیہ نے چارج چھوڑ دیا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا پولیس افسران کے تسلسل کے ساتھ تبادلوں سے پولیس کمانڈ اور کارکردگی میں فرق پڑتا ہے۔ ڈی پی او لیہ کے تبادلہ سے متعلق ہیڈ لائنز نہیں دیکھی۔ وکیل شہزاد شوکت نے کہا گزشتہ چار سالوں میں بغیر کسی معقول وجوہات پر صرف سیاسی وجوہات کی بنا پر تبادلے کئے گئے جس کے وجہ سے پولیس افسروںکی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست میں دئیے گئے ڈیٹا کے مطابق پنجاب میں ڈی پی او کی اوسط ٹرم پانچ ماہ ہے جبکہ چار سالوں میں پنجاب میں 268 ڈی پی اوز کے تبادلے ہوئے۔ وکیل درخواست گزار نے کہا پنجاب میں آئی جی پولیس کی ایوریج ٹرم 6 ماہ ہے جو قانون کے مطابق تین سال ہونی چاہیے۔ عدالت نے کہا پولیس افسران کے کسی وجہ سے بغیر تبادلوں سے کریمینل جسٹس سسٹم کی پر فار منس پر اثر پڑتا ہے۔ ان حالات میں افسران میں سیاسی اثرو رسوخ سے اعلی عہدے حاصل کرنے کا رحجان بڑھتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا وکیل درخواستگزار کے مطابق یہ معاملہ پنجاب تک محدود نہیں اسلام آباد کے سابق آئی جی بڑے پڑھے لکھے اور ڈیسنٹ افسر تھے۔ انہوں نے سندھ ہائوس پر حملہ کا معاملہ بڑے اچھے انداز میں ڈیل کیا اور پھر وہ بھی تبدیل ہوگئے، جس کے بعد عدالت نے چاروں صوبوں اور اسلام آباد سے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت پندرہ روز کیلئے ملتوی کر دی۔

ای پیپر دی نیشن