کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے!


سمری کا قضیہ بالآخر نمٹ گیا۔ سمری یعنی نئے آرمی چیف کی تقرری کے لیے معمول کی مگر سنجیدہ کارروائی جسے تماشا گروں کی پارٹی نے غیر سنجیدہ اور غیر معمولی بنا کے رکھ دیا۔ تماشا گر نہ جانے اس بیچ کہاں کہاں سے کیسی کیسی خبریں بھی نکال لائے۔ وزیر اعظم کے استعفے، ملک سے فرار، مارشل لاءلگنے سمیت کوئی ایک درجن نہیں، ایک گرس کے لگ بھگ خبریں لیکن معاملہ بہرحال نمٹ گیا، تماشا گروں کا نیوز بلیٹن الف سے بے تک فیک خبروں کا پلندہ نکلا۔ فیک کا ترجمہ اس پارٹی کے نزدیک ”سچ“ ہوتا ہے۔ فیک خبریں گھڑنے ، فیک دعوے کرنے، فیک الزامات لگانے والوں کے لیے اس پارٹی نے خیر سے صادق و امین ہونے کا خطاب تیار کر رکھا ہے۔ معاف کیجئے گا، خطاب تیار تو ثاقب نثار نے کیا تھا، پارٹی تو محض اس کی تجدید کرتی رہتی ہے۔ 
قضیہ نمٹنے کے بعد یہ پارٹی کیا کرے گی، کہاں جائے گی؟
”اب“ کہاں جائے گی، کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے 
__________
تماشاگروں کی طرف سے بڑے تماشے کا اعلان پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔ ٹائم ٹیبل کے حساب سے پنڈی میں ہونے والے اس تماشے کے برپا ہونے میں بس ایک دن باقی رہ گیا ہے۔ اسد عمر نے کل ہی بیان دیا کہ یہ تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہو گا۔ یعنی کھمب میلے سے بھی بڑا اجتماع۔ ماضی قریب میں یہ کھمب میلہ 25 مئی کو ہوا تھا اور اس میں اتنے زیادہ لوگ آگے تھے کہ خان صاحب بھی پریشان ہو گئے کہ تاریخ انسانی کے اس سب سے بڑے کھمب میلے کو میں کیسے سنبھالوں گا، ناچار چھ روز بعد کی تاریخ دے کر وہاں سے تشریف لے گئے اور میلہ بنا کسی کمبل چرائے بکھر گیا۔ جلے ہوئے درختوں کی قطاریں اپنی یادگار کے طور پر چھوڑ گیا۔ اب پرسوں پھر یہ میلہ لگنے جا رہا ہے۔ لیکن اس بار یہ میلہ کچھ بے سمت نہیں ہو گیا؟۔ یعنی یہ کہ اس کا مطالبہ کیا ہو گا؟۔ وہ مطالبہ تو ہاتھ سے نکل ہی گیا کہ جو بھی ہوا تقرری میں ہی کروں گا۔ 
__________
کراچی کے تاجروں سے وڈیو لنک پر خطاب سے پتہ چلا کہ خان صاحب نے اپنے جدلیاتی مطالبے کو بدل دیا ہے۔ تقرری میں ہی کروں گا کی جگہ الیکشن میں ہی جیتوں گا، حکومت میں ہی کروں گا والے مصرعے نے لے لی ہے۔ 
البتہ یہ ”عزم“ کچھ مشروط سا ہے۔ اخباری رپورٹ کے مطابق ان کا فقرہ کچھ یوں تھا کہ: 
”مجھے تو انتخابی مہم بھی چلانے کی ضرورت نہیں، میں نے تو پاور میں آنا ہی آنا ہے۔ پہلا مطالبہ ہے کہ الیکشن شفاف ہونے چاہئیں، دوسرا مطالبہ ہے کہ میری حکومت واضح اکثریت سے آنی چاہیے۔ 
پہلا مطالبہ تو درست، یہ دوسرا مطالبہ کہ میری حکومت واضح اکثریت سے آنی چاہیے، کس سے کیا گیا ہے؟۔ آگے چل کر انہوں نے واضح اکثریت کی تشریح بھی کر دی کہ دوتہائی والی۔ 
وہ 2018ءوالے صاحب تو گئے، ان کی جگہ لینے والے کا کہنا ہے کہ انتخابات کے عمل سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں تو پھر انہیں دوتہائی اکثریت دلانے کا مطالبہ کون حضرت پورا کریں گے۔ خطاب میں انہوں نے بہرحال اس راز سے پردہ نہیں اٹھایا۔ 
__________
خان صاحب کے بہت سے ”یقین“ ماضی قریب بلکہ ماضی قریب ترین میں ہوا ہو چکے۔ جب الیکشن کمشن فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنانے والا تھا تو پی ٹی آئی نے ایک مہم چلائی کہ خان ہماری ریڈ لائن ہے، اسے نااہل کیا گیا تو ملک تورا بورا بن جائے گا۔ ہمالیہ کے رونے کی بات تو کسی نے نہیں کی لیکن کئے جانے والے دعوﺅں کا ترجمہ یہی تھا کہ کیا ہمالیہ، کیا قراقرم ، سب ٹوٹ پڑیں گے، ملک کو فالج نہیں تو لقوہ ضرور ہو جائے گا۔ 
لیکن ہوا یہ کہ ”ککّھ “ بھی نہ ہلا اور خان صاحب کئی دن تک عالم حیرت میں رہے۔ پھر وہ قاتلانہ حملے کا واقعہ ہوا جو ابھی تک ”مسٹری“ بنا ہوا ہے کہ دراصل اس روز ہوا کیا تھا اور خان صاحب کو دراصل کتنے زخم لگے تھے، دو تین یا چار اور خان صاحب کو گولیاں لگی تھیں یا گولیوں کے ٹکڑے۔ بہرحال، جو خبر پھیلی وہ قاتلانہ حملے ہی کی تھی اور اس بار بھی ککّھ نے ہلنے سے انکار کیا جس کے بعد یہ خبر بھی سامنے آئی کہ خان صاحب نے پارٹی لیڈروں کو لتاڑا ہے کہ یاد کرو، بے نظیر صاحبہ کے قتل پر ملک میں زلزلہ آ گیا تھا، میری بار کچھ بھی نہیں ہوا تو کیوں نہیں ہوا۔ 
پارٹی لیڈر کیا جواب دیتے۔ ظاہر ہے یہ تو نہیں کہہ سکتے تھے کہ صاحب ، بے نظیر صاحبہ تو سچ مچ شہید ہو گئی تھیں، یہاں تو محض ریہرسل ہوئی ہے۔ 
__________
خان صاحب نے ایک فرمائش اور بھی کی۔ فرمایا کہ استحکام صدارتی نظام سے ہی آ سکتا ہے۔ مکمل ترجمہ یوں بنا کہ مجھے دو تہائی اکثریت دلائی جائے، پھر صدارتی نظام نافذ کر کے مجھے صدر بھی بنایا جائے۔ دوسرا ترجمہ یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی مجھے دوتہائی اکثریت دلائے، باقی کام میں خود کر لوں گا۔ لیکن پہلا سوال پھر وہی ہے کہ یہ ”کوئی“ اب کہاں سے آئے گا؟۔ سوالنامے کا جواب نامہ یہ ہے کہ کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا لیکن خان صاحب فرمائشیں ارشاد فرمانے کی مہارت رکھتے ہیں، جواب سننے کی فرصت نہیں رکھتے۔ 
__________
کھمب میلے کی تیاریوں کے ضمن میں ایک خبر یہ ہے کہ انقلاب والے کنٹینر میں ایک ریمپ بنا دیا گیا ہے۔ خان صاحب کی بلٹ پروف گاڑی اس ریمپ کے ذریعے بلٹ پروف کنٹینر میں داخل ہو گی۔ خان صاحب اتریں گے ۔ یعنی خان صاحب کھلے میں اتر کر کنٹینر پر سوار نہیں ہوں گے۔ کنٹینر پر آنے کا یہ سارال مرحلہ ”ان ڈور“ ہی ہو گا۔ 
ایرے غیرے لیڈر ایسے بندوبست نہیں کرتے۔ ایسے اہتمام وہی لیڈر کر سکتا ہے جسے موت کا ڈر نہ ہو، جو قوم کی خاطر ہر وقت اپنی جان قربان کرنے کے لیے مستعد رہتا ہو، ڈر خوف جس کے قریب سے بھی نہ گزرا ہو۔ بخدا! 
__________
خان صاحب نے یہ برحق انکشاف بھی کیا کہ ملک کا سب سے بڑا مافیا رئیل سٹیٹ مافیا ہے یعنی وہی قبضہ مافیا، پراپرٹی مافیا، لینڈ مافیا، بلڈر مافیا کا مجموعہ ہے۔ 
ان کا شکوہ بجا ہے۔ یہ مافیا بہت غلط کار ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اس مافیا نے کسی برسراقتدار فیملی کو /5 ارب روپے کی اراضی اور ہیروں کا ہار عطیہ کیا تھا اور جواب میں قومی خزانے سے /50 ارب روپے کی وہ رقم بشکریہ وصول پائی تھی جو کسی یورپی ملک نے اس کی ناجائز کمائی کے طور پر ضبط کر کے حکومت پاکستان کو واپس کی تھی۔ اس تبادلہ عطیات پر بہت غل بھی مچا تھا لیکن ہوا کچھ نہیں۔ یہ کیا معاملہ تھا، امید ہے خان صاحب اگلے خطاب میں اس پر بھی روشنی ڈالیں گے۔ انتظار رہے گا۔ اور ہاں، اسی مافیا نے پچھلے برسوں کسی وزیر اعظم سے میگا ایمنسٹی بھی لی تھی۔ وزیر اعظم کا نام، افسوس کہ یاد نہیں آ رہا۔ 
__________

ای پیپر دی نیشن