آرمی چیف سے زیادہ ایک محب وطن، درد مند پاکستانی کا خطاب!!!!


میری خواہش رہی کہ کوئی سیاستدان بولے تو اس کی باتوں سے پھول جھڑیں، اتحاد، اتفاق، تعمیر و ترقی کی بات سننے کو ملے۔ وہ جیسا کہ احمد فراز نے کہا تھا
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں 
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں 
میرے ملک کے رہنماو¿ں کی باتوں سے پھول جھڑنے تو چاہئیں لیکن بدقسمتی ہے کہ رہنما عوامی اجتماعات میں بھی سوائے طنز کے، طعنوں کے سوا، الزامات اور برے ناموں کے سوا کم ہی بولتے ہیں۔ یوں کہہ لیجیے کہ صرف عوامی سطح پر باامر مجبوری صرف گالیاں نہیں بولتے باقی سب کچھ کہہ دیتے ہیں، ویسے کبھی کبھی یہ کام بھی کر جاتے ہیں اور میڈیا کو آواز خاموش کروانا پڑتی ہے۔ بہر حال میں ترس گیا ہوں، یہ خواہش ہے جو نہ تو ماضی میں کہیں پوری ہوئی نہ حال میں کوئی امکانات نظر آتے ہیں اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کی کوئی گنجائش نظر آتی ہے کیونکہ جتنی نفرت پھیل چکی ہے اس کے بعد مستقبل قریب میں ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ خواہش پوری نہ ہو سکے کیونکہ میرے جیسے کئی لوگ یہ لوگ ایسی خواہشات دل میں لیے دنیا سے چلے گئے جیسا کہ مرزا غالب نے کیا خوب کہا ہے
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے 
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
اب سیاست دانوں کے حوالے سے یہ خواہش پوری ہوتی نظر تو نہیں آتی لیکن امید پر دنیا قائم ہے لیکن سیاسی رہنماو¿ں کی گفتگو کے حوالے سے خواہش کا سوچوں تو پھر مرزا غالب ہی یاد آتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے کہا ہے
کوئی امید بر نہیں آتی 
کوئی صورت نظر نہیں آتی
اس صورت حال میں کہاں جائیں اپنا ملک ہے، اپنی دھرتی ہے، اس کی بنیادوں میں بزرگوں کا خون ہے ورنہ انشاءجی کی بات مانیں اور کہیں نکل لیں جیسا کہ انہوں نے کہا ہے
انشاءجی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب، جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا
اب ہم کوچ بھی نہیں کر سکتے کیونکہ ہم نے یہیں رہنا ہے، جینا مرنا اس مٹی میں ہے اس لیے خواہشات پوری نہ بھی ہوں تو ناامید ہو نہیں سکتے کیونکہ اس امید میں آگے بڑھ رہے ہیں ہم نہ سہی ہمارے بچے یا آنے والی نسلیں تو ضرور بدلا ہوا پاکستان اور بہتر پاکستان ضرور دیکھیں گی۔ 
یہ سب لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی اور خواہش میں شدت اس وقت آئی جب گذشتہ روز چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو سنا۔ وہ آرمی چیف تو ہیں لیکن ان کی گفتگو ایک سپہ سالار سے زیادہ ایک محب وطن، درد مند اور ملک کو تعمیر کے راستے پر دیکھنے والے پاکستانی کی معلوم ہوتی ہے۔ جہاں شدید الزامات کے باوجود درگذر سے کام لیا گیا اور وہ جنہوں نے اپنی فوج کو نہایت نامناسب ناموں سے پکارا وہ خود اس بیانیے سے پیچھے ہٹے، امریکہ کو بھی دوستی کا پیغام بھجوا دیا، یہ بھی کہہ دیا کہ اسٹیبلشمنٹ سازش کا حصہ نہیں تھی لیکن روک تو سکتی تھی ان دونوں بیانات کے بعد دفاعی اداروں پر لگنے والے الزامات اور اقتدار کی ہوس میں عوامی سطح پر نفرت پھیلانے والوں کا احتساب ہو گا۔ کیا یہ کرپشن سے بڑا جرم نہیں کہ آپ اپنے لوگوں کو اپنی فوج کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ انہوں نے شدید تنقید کے باوجود درگذر سے کام کیا لیکن صبر کی کوئی حد بھی ہوتی ہے۔ آرمی چیف کی یہ بات تو ٹھیک ہے لیکن کبھی کبھار ایسے حالات بھی بنتے ہیں کہ دیر تک خاموشی یا طویل خاموشی یا حد سے زیادہ صبر سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے بعض معاملات میں جواب دینا یا کارروائی ضروری ہوتی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے سیاسی جماعتوں کو بھی تحمل مزاجی کا درس دیا ہے۔ تحمل مزاجی اور عدم برداشت ہمارے معاشرے کی بڑی کمزوریوں میں سے ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی اس حوالے سے سنجیدہ کام کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ حالانکہ کئی بڑے مسائل صرف اسی وجہ سے ہیں۔ ہم نہ دوسروں کو تسلیم کرتے ہیں، نہ کسی دوسرے کی رائے کو اہمیت دیتے ہیں نہ ہی ہم اختلاف رائے کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان حالات میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے الوداعی خطاب میں پاکستان کو درپیش مسائل کا حل بتانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے صاف اور سادہ الفاظ میں پاکستانیوں کو اتحاد کا پیغام دیا ہے، انہوں نے ناصرف اپنی ذات پر حملے برداشت کیے بلکہ ادارے پر ہونے والی تنقید پر بھی تحمل مزاجی کا مظاہرہ کیا۔ بہت کچھ سننے کے بعد بھی انہوں نے صرف اور صرف پاکستان کے بہتر اور جمہوری مستقبل کے لیے خاموشی اختیار کی اور جاتے ہوئے سب کو یہ بتائے جا رہے ہیں کہ ملک کو کن مسائل کا سامنا ہے اور ملک کو مسائل سے کیسے نکالا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بہترین انداز میں پاکستانی فوج کی قیادت کی۔ دفاعی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے کام کرتے رہے۔ 
بین الاقوامی سطح پر بھی ان کی صلاحیتوں کو سراہا گیا۔ ان کی تقریر آپ نے سنی ہے کاش کہ ہمارے سیاستدان بھی اس تقریر سے کچھ سنیں، کم بولیں اور زیادہ کام کریں۔ جب بات کریں تو پاکستان کی بہتری کے حوالے سے گفتگو کریں۔ کاش کہ ایسا ہو جائے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ناصرف غلطیوں کا اعتراف کیا بلکہ ان کی اصلاح کا عمل شروع کرتے ہوئے اسے جاری رکھنے کا پیغام بھی دیا ہے۔ آج بھی پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے کچھ باتیں کی ہیں ایسی باتوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ نجانے انہیں کیوں خوف ہے۔ انہیں چاہیے کہ خوف سے باہر نکلیں اور قوم کو حقیقت بتائیں اپنی غلطیوں کی اصلاح بھی کریں۔

ای پیپر دی نیشن