اسلام آباد(نامہ نگار)عرفان صدیقی کی شاعری اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کے حالات پر تشویش او ر ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد سے عبارت ہے ان خیالات کا اظہارافتخار عارف نےادبی و ثقافتی تنظیموں ”ادبی پروار“ اور ”زاویہ“ کے زیر اہتمام اکادمی ادبیات پاکستان کے تعاون سے معروف ادیب اور کالم نگار ، سینیٹر عرفان صدیقی کے پہلے شعری مجموعے ”گریز پا موسموں کی خوشبو“ کی منعقدہ تقریب پذیرائی میں صدارت کرتے ہوئے کیا۔ تقریب میں پروفیسر ڈاکٹر احسان اکبر، پروفیسر جلیل عالی مہمانان خصوصی تھے،، ڈاکٹر رﺅف پاریکھ، ڈاکٹر فہمیدہ تبسم، ڈاکٹر حمیرا اشفاق، فواد حسن فواد، ڈاکٹر جمال ناصر اور ساجد ملک نے اظہار خیال کیا،افتخار عارف نے کہا کہ عرفان صدیقی کے شعری مجموعے کا حصہ اول نظموں پر مشتمل ہے، یہ نظمیں ایک کہانی بیان کرتی ہیں جو محبت کے سارے موسموں پر محیط ہے۔ جذبے کی شدت اور احساس کا وفور پہلے مصرعے سے آخری مصرعے تک عہد و پیمان کے مہربان موسموں سے ہجر و فراق کے الم انگیز زمانوں تک سارا ماحول افسانہ در افسانہ بیان ہوا ہے ۔
غزلوں کا غالب مزاج انگار، احتجاج ، اضطراب اور مزاحمت کا ہے۔ اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کے حالات پر تشویش اور اس ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد کے جذبے کے ساتھ اس بے لحاظ و بے مہر نظام کے ذمہ دار ہیں۔ نظموں کی فضا میرا جی ، مجاز اور ساحر کی ترقی پسند روایت میں ہےکہ عشق کا مکالمہ خاتون سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ قاری کے لیے یہ انداز مانوس بھی لگے گااور خوشگوار بھی۔ لغتِ شعر کی انفرادیت کی داد بھی اہل ذوق پر لازم ہے ۔ عرفان صدیقی زندگی اور محبت کے مشکل مرحلوں سے گزرا ہے، وفا ان کی سرشت اور شاعری میں شامل ہے۔
عرفان صدیقی کی شاعری ظلم و جبر کےخلاف جدوجہد سے عبارت ہے،افتخار عارف
Nov 24, 2022