… قومی افق … کوئٹہ
ریکوڈک منصوبہ اور بلوچستان کے مفادات کا تحفظ
فیصل ادریس بٹ ……………………
ریکوڈک بلوچستان کی خوشحالی کی ایسی کلید ہے جو اس صوبے کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ صوبہ بلوچستان ہی نہیں اس منصوبے سے پاکستان کی تقدیر بھی بدل سکتی ہے۔ بلوچستان معدنی دولت سے مالا مال صوبہ ہے، کون سی قیمتی معدنی دولت ہے جویہاں زیر زمین پائی نہیں جاتی۔ تیل گیس اور سونے تانبے کے اس ریکوڈک منصوبے کے علاوہ بھی بے شمار قیمتی دھاتیں یہاں زیر زمین چھپی تلاش کرنے والوں کی راہ دیکھ رہی ہیں۔ عرصہ دراز سے یہ اہم منصوبہ وفاق صوبے اور کھدائی کرنے والی عالمی کمپنی بیرک گولڈ کے درمیان متنازعہ بن چکا ہے یا بنایا گیا ہے۔ اس منصوبے پر مقررہ وقت کے مطابق کام نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو عالمی عدالت انصاف کی طرف سے 9 ارب ڈالر کا بھاری جرمانہ ہو چکا ہے۔ یہ کیس بیرک گولڈ کمپنی نے اس منصوبے میں تاخیر اور رکاوٹوں کی وجہ سے دائر کیا تھا۔ اگر31 دسمبر 2022ء تک معاہدے کے مطابق کام شروع ہو جاتا ہے تووفاقی حکومت اور حکومت بلوچستان کی کوشش بھی یہی ہے کہ اس بھاری جرمانے سے بچا جا سکے۔ ورنہ ملکی معیشت کی حالت پہلے ہی پتلی ہے یہ بھاری جرمانہ ہماری معیشت کی کمر توڑ دے گا۔ یہ وقت ہے کہ کھدائی کرنے والی کمپنی بیرک گولڈ اور حکومت پاکستان و حکومت بلوچستان ملکی خزانے، معیشت اور صوبے کے مفادات کے تناظر میں مل بیٹھ کر کوئی ایسی تیسری راہ نکالیں جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
یہ کوئی معمولی سرمایہ کاری کا مسئلہ نہیں 4.297 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ریکوڈک میں ہو رہی ہے جہاں سے تانبے اور سونے کے وسیع ذخائر نکالے جائیں گے۔ معاہدے کے مطابق اس سے نکلنے والا 60 فیصد سونا اور تانبا بیرک گولڈ کمپنی لے جائے گی باقی 40 فیصد میں سے کچھ حصہ بلوچستان اور کچھ حصہ پاکستان کو ملے گا۔ جب یہ معاہدہ کیا گیا اس وقت اگر اس معاہدے کے تمام منفی اور مثبت پہلوؤں کو مدِنظر رکھا جاتا تو بے شمار قباحتوں پر قابو پایا جا سکتا تھا۔ مگر بُرا ہو اس کمیشن خور مافیا کا جو ہر کام میں پہلے اپنا حصہ دیکھتی ہے، اپنا کمیشن طے کرتی ہے پھر اس کام کی منظوری دیتی ہے یہی کچھ اس منصوبے کے ساتھ بھی ہوا ہے جس کی وجہ سے حکومت بلوچستان کی طرف سے اس پر اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں اور ماضی میں بھی اٹھائے گئے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مسئلے کو سیاست اور بیان بازی کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔ پوری دنیا کے سرمایہ کاروں کی نظریں اس طرف لگی ہیں۔ اپوزیشن رہنما عمران خان کہہ رہے ہیں کہ عالمی سرمایہ کاروں کو پاکستان پر اعتماد نہیں رہا۔ اگر ریکوڈک کا معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہو جاتا ہے تو اسی میں سب کا بھلا ہے۔ ملکی معیشت اور بلوچستان کی ترقی کے لئے یہ ایک اہم ٹرننگ پوائنٹ ہے۔
ویسے بھی یہ معاملہ اس وقت سپریم کورٹ میں پیش ہے جس میں وفاق اور کمپنی کے وکلا اپنے اپنے حق میں دلائل دے رہے ہیں۔ صوبہ بلوچستان بھی اس کیس میں بطور فریق اپنا حصہ ڈالے اور اپنے صوبائی مفادات کا تحفظ کرے۔ اُمید ہے عدالت عظمیٰ تمام فریقوں کو سننے کے بعد مقررہ وقت یعنی 31 دسمبر 2022ء سے قبل ہی کوئی ایسا لائحہ عمل طے کرے گی جس سے کسی کے مفادات پر زک نہ پہنچے اور خوش اسلوبی سے یہ معاملہ طے ہو سکے۔ اس وقت سب سے اہم چیز پاکستان کے مفادات اور بلوچستان کے مفادات کا تحفظ ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ 72 برس گزرنے کے بعد بھی ہم اس قابل نہیں ہو سکے اپنے ملک میں زیر زمین چھپے معدنی وسائل کو بروئے کار نہیں لا سکے۔ اس معاملے میں بھی ہمیں غیروں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے ان کی معاونت حاصل کرنا پڑتی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے یہ بھی کہا ہے کہ حکومت بلوچستان بھی اس منصوبے میں سرمایہ کاری کر سکتی ہے تو اب یہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے لئے ایک اہم امتحان بھی ہے اور موقع ہے۔ وہ پُرعزم اور جواں حوصلہ ہیں۔ بلوچستان میں بڑے بڑے سردار اور نواب موجود ہیں ان کے ساتھ مل کر اگر وہ اس منصوبے میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں تو منافع میں ان کا حصہ بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔ میر عبدالقدوس بزنجو اس موقع پر اپنے اتحادیوں اپنے ساتھیوں اور بلوچستان کے اہم بااثر قومی و صوبائی رہنماؤں کو اعتماد میں لے سکتے ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو عوامی فلاحی منصوبوں پر پہلے ہی بہت کام کر رہے ہیں انکی وزارت اعلیٰ کے دور بلوچستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اب صوبے کی حقوق اور مفادات کا مسئلہ ہے ۔ عبدالقدوس بزنجو اگر اسی مسئلے میں اپنی حکومت اور مرکزی حکومت کے درمیان درست پالیسی اختیار کرتے ہوئے تو اس میں بلوچستان کو فائدہ ہوگا۔ امید ہے کہ وہ اپنا مقدمہ اچھے دلائل سے لڑیں گے جیسا کہ وزیراعلیٰ نے سیکرٹری انفارمیشن بلوچستان سیدال لونی کو سیکرٹری معدنیات پوسٹ کرنے کا اہم فیصلہ خوش آئند ہے۔
بہتر راہ بھی یہی ہے کہ اس منصوبے میں کام شروع ہونے کی صورت میں سب سے زیادہ افرادی قوت اور ملازمتوں میں بلوچستان کے نوجوانوں کو جگہ دی جائے ٹرانسپورٹیشن اور دیگر معاملات میں بھی بلوچستان کے لوکل اس کے بعد وہیں کے ڈومی سائل کو بھری کیا جائے ان سے کام لیا جائے تاکہ صوبے کے عوام میں مخالفین کو یہ پراپیگنڈا کرنے کا موقع نہ مل سکے کہ یہاں غیر مقامی افراد کو لا کر کام کیا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے پہلے ہی صوبے میں غیر مقامی مزدوروں کے اغوا اور قتل کے واقعات سے صوبے میں امن و امان کی خراب حالت کی تصویر سامنے آنے سے مشکل ہوتی رہی ہے اور غیر ملکی سرمایہ کار بھی خوف کا شکار ہوتے ہیں۔ بلوچستان کے بڑے تعداد میں بیروزگاروں کو ا س منصوبے سے روزگار ملے گا۔ ریکوڈک تا گوادر یا کراچی کی بندرگاہ تک سڑک کی تعمیر ہونے سے پورے منسلکہ علاقے میں بھی تجارتی مواقع کھلیں گے۔ اُمید ہے وزیراعلیٰ بلوچستان سب سے پہلے بلوچستان کے باشندوں کو اس منافع بخش منصوبے میں آگے لا کر ان کے معاشی حالات کو بہتری کی طرف گامزن کریں گے۔ بطور وزیراعلیٰ بھی ان کا فرض ہے کہ وہ صوبے اور عوام کے مفادات کو اولیت دیں اور ان کے تحفظ کے لئے ڈٹ جائیں اس سے ان کی نیک نامی میں بھی اضافہ ہوگا اور وہ عوام کے دلوں میں جگہ بنا لیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭