چیف جسٹس پاکستان کے سخت ریمارکس، آئی جی پنجاب کی اداکاری اور ایس ایچ او شہداد پور!!!!!

پورے ملک میں صوبوں کی تفریق کیے بغیر سارے صوبوں میں پولیس کے کام سے لوگ اس حد تک مایوس اور تنگ ہیں کہ دعا دیتے ہیں "اللہ کسے دشمن نوں وی تھانے نہ لے کے جاوے" اور یہ سوچ پورے ملک میں ہے۔ بدقسمتی ہے کہ پاکستان بھر میں سب جانتے ہیں کہ یہ ایک ایسا محکمہ ہے جس کا براہ راست تعلق عوام سے ہے اور ملک میں امن و امان کے قیام اور عوام کی جان اور مال کے تحفظ میں پولیس کا کردار سب سے اہم ہے۔ اگر محکمہ پولیس بہتر کام نہیں کر رہا ہو گا تو ہر سطح پر بے چینی اور پریشانی رہے گی۔ جرائم کی شرح میں اضافے سے کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں دنیا بھر میں ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے، لاقانونیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ عدم تحفظ کا احساس بڑھتا ہے ، عام آدمی کی زندگی مشکل ہوتی ہے، جرائم پیشہ عناصر کی طاقت میں اضافے سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ ان سب خرابیوں کی سب سے بڑی وجہ پولیس کی خراب ناقص اور قابل گرفت کارکردگی ہے۔ بدقسمتی ہے کہ اس شعبے کی سربراہی پڑھے لکھے لوگ کرتے ہیں، منصوبہ بندی وہی کرتے ہیں، حکمت عملی وہی تیار کرتے ہیں، تقرریاں، تعیناتیاں وہی کرتے ہیں، ٹرانسفر پوسٹنگ پڑھے لکھے افراد کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود محکمہ پولیس اپنی ناقص کارکردگی کی وجہ سے ہمیشہ تنقید کی زد میں رہتا ہے۔ حتی کہ مختلف وقتوں میں ملک کی سب سے بڑی عدالت میں بھی پولیس کی کارکردگی پر سوالات ہوتے ہیں اور ذمہ داروں کی سرزنش بھی ہوتی ہے لیکن کسی کو فرق نہیں پڑتا۔ چند روز قبل بھی سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی نے دوہرے قتل کے ملزم کی ضمانت کے کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا یے کہ خیبرپختونخوا پولیس کی تفتیش کا معیار انتہائی بدترین ہے۔ کہا جاتا ہے خیبرپختونخوا پولیس میں اصلاحات ہوئیں، پولیس میں ریفارمز کہاں ہوئی ہیں؟ دو افراد کا قتل ہوا، تین افرد زخمی ہوئے، پولیس نے اتنے بڑے واقعات کی کیا تفتیش کی،زخمیوں کے بیانات ہی ریکارڈ نہیں کیے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے دوہرے قتل کے ملزم کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کو کیس کا التوا کے بغیرفیصلہ کرنے کی ہدایت کی۔ اب یہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے ایک کیس کا حوالہ ہے جہاں ایک ایسے ادارے کے کام کرنے کے انداز پر سنجیدہ سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا متعدد مقدمات میں پولیس کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا جاتا رہا ہے لیکن آج تک کبھی کوئی فرق نہیں پڑا۔ 
پنجاب پولیس کی بات کریں تو یہاں آئی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور سمیت کئی اعلٰی افسران تو ہر وقت سوشل میڈیا پر نظر آتے ہیں۔ بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب پولیس کے اعلی حکام محکمے کے سوشل میڈیا کو غیر ضروری طور پر ذاتی تشہیر کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ کیا پولیس حکام کے اہم اقدامات یا اہم کارروائیوں کو بتانے کے لیے انہیں خود ایک وی لاگر یا رپورٹر کے طور پر نظر آنا چاہیے۔ جتنا وقت وہ سوشل میڈیا پر نظر آنے کے لیے صرف کرتے ہیں اگر یہی وقت وہ محکمے کی بہتری پائیدار امن کے قیام اور محکمے کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے پر لگائیں تو یقینا محکمے کی کارکردگی میں فرق آ سکتا ہے۔ پنجاب پولیس میں نفری کم ہے، غیر ضروری طور پر تعمیرات تو ہو رہی ہیں لیکن نفری بڑھانے اور بنیادی مسائل حل کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔ شہداء کے خاندانوں کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے یہ محکمے کا فخر ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو زندہ ہیں اور دن رات کام کر رہے ہیں، موسموں کہ سختیاں برداشت کر رہے ہیں ، اپنی صحت، خوشیاں، زندگی ملک و قوم کے نام کر رہے ہیں انہیں زندہ رہتے ہوئے سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوئی کام کیوں نہیں ہو رہا، کیا اس کے لیے آئی جی پنجاب یا ان کا کوئی پسندیدہ افسر کوئی ویڈیو جاری کرے گا۔ محکموں کے سوشل میڈیا پیجز کے اخراجات ریاست برداشت کرتی ہے ان پیجز کو کسی کی خواہش یا ذاتی تشہیر کے لیے استعمال کرنا اختیارات کے ناجائز استعمال کے زمرے میں آتا ہے ۔ مختلف شہروں میں نگرانی کے لیے نصب سیکیورٹی کیمروں کی کیا حالت ہے اس حوالے سے ہنگامی بنیادوں کر کام کرنےکی ضرورت ہے اس کام کو کیوں نظر انداز کیا گیا ہے ۔ کیوں پی سی اوز اور کانسٹیبلان کے مسائل حل نہیں ہو رہے، کیوں ٹک ٹاکرز پر وقت اور سرمایہ خرچ ہوتا ہے ۔ اس کا حساب بھی تو کسی کو لینا پڑے گا ۔ کیوں ادارے کو عوام کی خدمت کے قابل بنانے کے بجائے غیر ضروری کاموں میں وقت اور سرمایہ ضائع کیا جا رہا ہے، کیوں تفتیش کو سائنسی بنیادوں پر لے جانے اور سیکیورٹی کو جدید طریقوں سے بہترین بنانے کے لیے کام نہیں ہوتا۔ کیوں پولیس کو عوام دوست بنانے کے لیے حقیقی معنوں میں کام نہیں ہوتا۔ اگر پولیس میں بدزبانی نچلی سطح پر ہے تو دیکھنے کی بات یہ ہے اعلی سطح پر کام کیسے چل رہا ہے جب افسران میٹنگز میں ماتحتوں سے بدزبانی کرتے ہیں تو پھر یہ سلسلہ ایک کانسٹیبل تک منتقل ہوتا چلا جاتا ہے۔ تھانہ کلچر بدلنے کے لیے پولیس کے اعلی افسران کو اپنا طریقہ کار بدلنا ہو گا۔ وسائل کو دیکھتے ہوئے بہت سے کام ہو سکتے ہیں لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب مقصد ملک و قوم کی خدمت ہو۔
پولیس کی خبروں پر نظر ڈالتے ہوئے شہداد پور کے سٹیشن ہاو¿س افسر (ایس ایچ او) دیدار سولنگی کے معطل ہونے کی خبر بھی نظر سے گذری ہے۔ دیدار سولنگی کی ایک ٹک ٹاکر لڑکی کے ساتھ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ جس میں ایس ایچ او لڑکی کو پولیس وردی پہنا کر گاڑی میں گھما رہا ہے۔ شہداد پور میں ایس ایچ او تو اس حرکت پر معطل ہو گیا ہے لیکن پنجاب کے تو آئی جی خود ایک وقت میں ٹک ٹاکرز کو مختلف تقریبات میں مدعو کرتے رہے ہیں۔ جب آپ اصل کام چھوڑ کر سوشل میڈیا پر وقت ضائع کریں گے اور ٹک ٹاکرز کو اتنی اہمیت دیں گے تو پھر جو پیغام جائے گا لوگ اس کو معیوب نہیں سمجھیں گے۔ دیدار سولنگی تو بے چارہ ایسے ہی معطل ہو گیا ہے یہاں تو بڑے بڑے افسران ٹک ٹاکرز کے پرستار بنے ہوئے ہیں ۔ بہرحال ملک کے تمام صوبوں میں محکمہ پولیس کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے اور پولیس افسران آج بھی ادارے کو سو ڈیڑھ سو سال پرانی سوچ اور طریقہ کار کے تحت چلا رہے ہیں۔ لوگوں میں پولیس کے حوالے یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ ناانصافی، بدعنوانی، جرائم کی شرح میں اضافے اور مظلوم کی مشکلات میں اضافے کا باعث محکمے میں بیٹھے لوگ ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کون حقیقی اصلاحات کی طرف جائے گا اور کون حقیقی معنوں میں عوام کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کر کام کرے گا۔
خیبر پختونخوا کے محکمہ داخلہ سے خبر یہ ہے کہ اٹھاون ہزار مشکوک قومی شناختی کارڈز بلاک کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ محکمہ داخلہ نے نادرا کو جعلی شناختی کارڈ بلاک کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں اور جعلی پی او آر، افغان کارڈ بلاک کرنے کیلئے خط نادرا کو ارسال کیا ہے۔نادرا نے جعلی پی او آرکارڈ، افغان کارڈ اور جعلی پاکستانی شناختی کارڈ بلاک کر دیے ہیں۔ یہ کام صرف ایک صوبے تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ اس حوالے سے تمام صوبوں میں ایسے ہی فیصلوں کی ضرورت ہے۔ ملک میں امن و امان کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے اور بلا امتیاز کارروائی ہونی چاہیے ۔ 
آخر میں احمد ندیم قاسمی کا کلام
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاو¿ں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاو¿ں گا
تیرا در چھوڑ کے میں اور کدھر جاو¿ں گا
گھر میں گھر جاو¿ں گا صحرا میں بکھر جاو¿ں گا
تیرے پہلو سے جو اٹھوں گا تو مشکل یہ ہے
صرف اک شخص کو پاو¿ں گا جدھر جاو¿ں گا
اب ترے شہر میں آو¿ں گا مسافر کی طرح
سایہ ابر  کی مانند  گزر جاو¿ں گا
تیرا پیمان وفا راہ کی دیوار  بنا
ورنہ سوچا تھا کہ جب چاہوں گا مر جاو¿ں گا
چارہ سازوں سے الگ ہے مرا معیار کہ میں
زخم کھاو¿ں گا تو کچھ اور سنور جاو¿ں گا
اب تو خورشید کو گزرے ہوئے صدیاں گزریں
اب اسے ڈھونڈنے میں تا بہ سحر جاو¿ں گا
زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیم
بجھ تو جاو¿ں گا مگر صبح تو کر جاو¿ں گا

ای پیپر دی نیشن