’کولاژ‘کا تازہ شمارہ جوکبھی پرانانہیں ہوگا

 مصحفی کا مرزبوم امروہہ باکمال لوگوں کا شہر تھا، اس شہرکے مکین اپنے’غمزہ وعشوہ وادا‘ سے اپنا قتیل بنالینے میں ثانی نہیں رکھتے تھے۔ صادقین نے کہا، ’امروہہ شہرتخت ہے/ گزران یہاں کی سخت ہے /جو چھوڑے کم بخت ہے‘۔کہاوت مشہور ہے کہ’امروہہ کی ٹھکری ٹھکری شاعر ہے‘، صادقین بین الاقوامی شہرت یافتہ مصورہونے کے ساتھ ساتھ موزوں طبع بھی تھے۔لیکن یہاں ہم صادقین کی نہیں، اقبال نظر صاحب کی بات کریں گے۔اقبال نظرکے والد نظرامروہوی کاتعلق اسی شہرِ خوباں(امروہہ) سے ہے۔ یہ گھر’ایں خانہ ہمہ آفتاب است‘کے مصداق علم وادب کا مرکز رہا۔ نظرامروہوی مرحوم صاحبِ سلسلہ بزرگ تھے،ان کا شمار اردو کے اہم شعرا میں ہوتا ہے۔مشتاق احمد یوسفی اپنے ایک مضمون میںان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ’نظر امروہوی سے میری نیاز مندی چالیس پینتالیس برسوں پر محیط ہے۔ میں نے انھیں کبھی بغیر شیروانی کے نہیں دیکھا‘۔یہ اگلے وقتوں کے وضعدار لوگ تھے۔ ان کا ایک شعر دیکھیے:
 نہ کوئی کارواں ہے،نہ رہگذر،نہ کوئی منزل نہ راہبرہے
مقام ِ ہوش وخبرسے آگے تمام عالم غبارساہے
اقبال نظرپیشے کے اعتبارسے بینکر ہیں۔ بنیادی طو رپرافسانہ نگار اورڈراما نویس ہیں،ان کی ناقدانہ نظربھی کمال درجے کی ہے۔یہاں ان کی ناقدانہ بصیرت کاذکر کرکے ان سے خوفزدہ کرنا مقصود نہیں۔ان کے ادبی تحرک کے سبب ،یہ اعتراف کرنا پڑے گاکہ وہ پیراہن ِپوشاک میں لپٹے ہوئے ایک شرر کی مثال ہیں۔اقبال صاحب کااردو ادب پرایک احسان ہے کہ یہ ’کولاژ‘ کے نام سے ایک عہدساز رسالہ بھی شائع کرتے ہیں۔کراچی میں اس سے پہلے اردو، نگار، ساقی، نیادور، افکار، منزل، ارتکاز، صریر، دنیائے ادب، سیپ، ارتقا، دنیازاد، تشکیل، تمثال، اقدار اور آئندہ جیسے شاندار ادبی رسائل وجرائد شائع ہوتے رہے ہیں۔’کولاژ‘ اپنے مندرجات کے لحاظ سے مجھے ادب عالیہ کے فروغ کی اس روایت کاحقیقی ترجمان محسوس ہوا ہے۔ چندروزپہلے ’کولاژ‘ ملا، یہ اس کا انیسواں شمارہ ہے۔سات سوبیس صفحوں پرمشتمل اس شمارے کے پشتے پرایک خوب صورت جملہ درج ہے،’دل کی حماقت اورطاقت کااندازہ ادبی شمارہ نکالنے کے بعدہی لگایا جاسکتا ہے۔نیا کولاژ جوکبھی پرانا نہیں ہوگا،حاضرہے‘۔یہ عام بات نہیں،کسی زمانے میں اوراق اورفنون جیسے رسالوں کے مدیران (وزیرآغا، احمدندیم قاسمی)بھی اپنے کم وسائل کے سبب کاغذ کی مہنگائی کا شکوہ کرتے نظرآتے تھے۔آج کے دور میں اتنا ضخیم ادبی رسالہ شائع کرنا، واقعی دیوانوں اورفرزانوں کا کام ہے۔افسوس کہ ہمارے ہاں ادبی رسائل کو زندہ رکھنے کے لیے حکومتی سطح پرکسی بھی قسم کا کوئی منصوبہ زیرِ غور نہیں۔یوں بھی کتابوں کی دکانوں کی جگہ اب برائلرکا گوشت فروخت ہوتاہے۔ ہم کڑاہی گوشت اوردودھ جلیبی کھا کرخراٹے مارنے والی قوم ہیں۔ اس’قومی بسیار خوری‘ کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج من حیث القوم ہم ( تمام مشکل وآسان مراحل پر) دماغ کی بجائے، سوچنے کے لیے پیٹ سے رجوع کرتے ہیں ۔
 اس مشکل زمانے میں ’کولاژ‘جیسے شاندار رسالے کی اشاعت کسی عظیم کارنامے سے کم نہیں۔اس رسالے کے ہرشمارے کا سرورق اردو کے معروف شاعر سمپورن سنگھ گلزار کاتخلیق کردہ ہوتاہے۔گلزار ’کولاژ‘کے مستقل لکھنے والوں میں بھی شامل ہیں۔اس شمارے کے دیگر اہم لکھنے والوں میں مستنصرحسن تارڑ، انورشعور، مسلم شمیم، انواراحمد، خالدسعید، باصرسلطان کاظمی، ڈاکٹرفاطمہ حسن، محمدحفیظ خاں، سلیم کوثر، شاہین مفتی، شاہدہ تبسم، علی محمدفرشی، وحیداحمد، نجیبہ عارف، سعودعثمانی، سیدایازمحمود اورمحمدفیصل شامل ہیں۔ خوداقبال نظرکی تحریریں ان کے تخلیقی طورپر منفرد مقام پرفائزہونے کی گواہ ہیں۔یہ مقالات ومضامین ہوں یا رپورتاژ، شاعری ہو، افسانہ۔ سفرنامہ ہویاتمثیل،کرہ¿ غنائی ہو یا خود نوشت،ہر ایک کا معیاری انتخاب اس شمارے کی زینت بناہے۔ اس کے پیش منظر میں اقبال نظر اوران کے معاونین (شمیم مرتضیٰ، منصوراحمد) کی مدیرانہ خصوصیات کا بآسانی مشاہدہ کیاجاسکتاہے۔رسالے کے دیباچے میں مدیراعلیٰ رقم طراز ہیں کہ’کہانی کبھی مکمل نہیں ہوتی ،دراصل ہمارے پاس ایک بے حدطویل کہانی ہوتی ہے۔جس کے ہم حصے بخرے کرتے رہتے ہیں۔اورکہتے یہ ہیں کہ میں نے افسانہ لکھاہے،رپورتاژلکھاہے،ڈراما اورداستان لکھی ہے۔سب غیرمطبوعہ اورنیاہے۔حالانکہ نیاکچھ بھی نہیں ہوتا۔ہم نگلی ہوئی اوراگلی ہوئی چیزوں کو نیااور تازہ بناکر پیش کرتے رہتے ہیں۔کہانی تو روز ازل لکھی جاچکی ہے اوراس کا انجام ہرکوئی جانتا ہے‘۔یہاں امیرالمومنین سیدنا علی ؓ کا ایک قول یاد آتا ہے۔ آپؓ نے فرمایا،’کہنے والی ہربات کہی جاچکی ہے‘۔جب کہنے والی ہربات کہی جاچکی ہے تو ہم نیا کیوں لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ عمل ہی ہماری بقا سے مشروط ہے،نئی بات کہنے کی جستجو ہی ہماری فکر کومہمیز دیتی ہے۔ہم اپنے افکاروتصورات کو ایک منقش پہیے کی طرح گھماتے رہتے ہیں۔
’کولاژ‘کے اس ضخیم شمارے کے مندرجات میں ایک تحریر بھی اضافی نہیں۔ہر تحریر اپنی انفرادی حیثیت میں اہم ترین ہے۔مستنصر حسین تارڑ نے صادقین کے ساتھ گزرے ایام کی یاد یں چھیڑی ہیں،جس میں وہ صادقین کے معتقد ہونے کے باوجود کہیں کہیں تلخ نوائی میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔یہ تو ہوئی امروہہ کے سادات اورگجرات کے جاٹوں کی باہمی مناقشت کی کہانی ،قاری تو دونوں عظیم شخصیات کے باہمی ربط سے لطف لیتاہے۔شمیم مرتضیٰ کا مضمون سراج اورنگ آبادی کے آگ سے خاک بننے اورپھراکسیر ہوجانے کی بھرپورروداد ہے۔خالد محمود درانی نے یوسف خان(دلیپ کمار)سے اپنی طویل ملاقات کی کہانی بہ تفصیل بیان کی ہے۔کرن سنگھ نے شیخ ایاز کے سندھی رپورتاژ کا اردو ترجمہ کیا ہے،جس میں ان کے کراچی کے شب وروزکے واقعات درج ہیں۔باصر سلطان کاظمی نے ناصر کاظمی نے ©’انتخاب ِ کلام داغ دہلوی‘ کے پس منظرمیں موجود مخفی پہلوؤں کی خوب نشاندہی کی ہے۔ ادب اورموسیقی کا نہایت قریبی رشتہ ہے۔ پاکستانی موسیقاروں کے تعارف کے طورپر سلطان ارشد کا تفصیلی مضمون بھی خاصے کی چیزہے۔ محمدفیصل نے عالمی افسانوی ادب کے خوبصورت نمونے اردو کے قالب میں ڈھالے ہیں۔ اس رسالے کاہرصفحہ منتظمین کی زاویہ نشینی کی گواہی دیتا ہے۔

ڈاکٹر افتخار شفیع- سرمایہ¿ افتخار

ای پیپر دی نیشن