29نومبر فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا عالمی دن

Nov 24, 2023

ڈاکٹر سبیل اکرام 
ہر سال 29نومبر کوفلسطینی مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس کا آغاز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2 دسمبر 1977ءکواپنی ایک قرارداد کے ذریعے کیا تھا۔ اس وقت سے تقریباََ ہر سال کسی نہ کسی سطح پر اظہار یکجہتی فلسطین کا دن منایا جاتا ہے۔ چنانچہ امسال بھی ایک دن کے کچھ حصے میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں 29نومبر کو اہل فلسطین کے اظہار یکجہتی کا دن منایا جائے گا۔جلسے ہوں گے ، جلوس نکالے جائیں اور مظاہرے ہوں گے۔29نومبر کا دن گرزنے کے ساتھ ہی یہ سب کچھ بھولی بسری داستان بن جائے گا۔ اس میں شک نہیں کہ اس وقت فلسطینی عوام مظلوم ہیں ، مصیبت زدہ ہیں ، کرب واذیت کا شکار ہیں ، اسرائیل کے مظالم کی چکی میں پس رہے ، تڑپ رہے ، کٹ رہے ، خون میں نہائے جا رہے۔ان کے بچے ذبح کیے جارہے ہیں ، گھرہسپتال اور تعلیمی ادارے گرائے جاچکے ہیں، غزہ کی پٹی پرفلسطینی مسلمانوں کےلئے زمین تنگ ہو چکی ہے اور آسمان سے آہن وبربریت کے شعلے برس رہے ہیں۔ حد یہ ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کےلئے کوئی جائے پناہ نہیں رہی ہے۔ یہ بات طے ہے کہ فلسطین کے باشندوں کو صرف مسلمان ہونے کی سزا دی جارہی ہے۔ ان کا جرم اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ وہ کلمہ گو ہیں ، محمد عربی کے امتی ہیں ، قرآن مجید کو کتاب ہدایت مانتے اور کعبة اللہ کو قبلہ مانتے ہیں۔ 
نبی مکرم رحمت عالم نے مسلمان کی جو صفات بیان فرمائی ہیں ان میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان امت واحدہ ہیں، ایک جسم کی مانند ہیں جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے اور آپ نے مزید فرمایا مسلمان وہ ہے جو مصیبت میں اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے اور اسے تنہا نہیں چھوڑتا۔ مدد یا اظہار یکجہتی کی کئی اقسام ہیں کبھی مظلوم کی مدد زبانی یا اخلاقی طور پر یا پھر کبھی عملی طور پر مدد کی جاتی ہے۔ فلسطین کے مسلمان اس وقت جس کرب واذیت سے گزررہے ہیں ان حالات میں ضروری ہے کہ ہم ان کی صرف اخلاقی اور مالی ہی نہیں بلکہ عملی اور عسکری مدد بھی کریں۔
جیسا کہ اس بات کا ذکر پہلے ہوچکا ہے اہل فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن منانے کا آغاز77 19ءمیں ہوا تھا گویا دنیا نصف صدی سے اہل فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن مناتی چلی آرہی ہے۔نصف صدی کا یہ قصہ ہے پل دو پل کی بات نہیں۔ پچاس سال اظہار یکجہتی کا دن منانے کے باوجود فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں، ان کے مسائل سلجھنے کی بجائے الجھتے ہی چلے جارہے ہیں اور مسئلہ فلسطین سنگین تر ہوتا چلا جارہا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پم سب مدد کے عملی تقاضے پورے نہیں کرپا رہے بس زبانی کلامی ہی مدد کے نعرے لگاتے ہیں۔ حالانکہ مصیبت زدہ کی مدد اور اس کے ساتھ عملی طور پر اظہار یکجہتی کرنا ہمارے دین کا حکم ہے ، یہ عبادت بھی ہے ، انسانیت بھی اور خدمت خلق بھی ہے۔ جو مسلمان جانتے بوجھتے اور وسائل کی دستیابی کے باوجود اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد نہیں کرتے وہ مسلمان ہونے کا حق ادا نہیں کررہے اور ان کا امت محمدیہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایسے مسلمانوں پر اللہ دنیا میں بھی ذلت ورسوائی مسلط کردیتا ہے اور قیامت کے دن بھی رسوائی ان کا مقدر بنتی ہے۔
آج اگر مسلمان دنیا میں ذلیل وخوار ہورہے ہیں تو اس کی منجملہ وجوہات میںبڑی وجہ یکجہتی کا فقدان ہے۔ فی زمانہ ملت اسلامیہ کا بس ایک ہی کام رہ گیا ہے کہ کسی جگہ ہونوالے ظلم کے خلاف جلوس نکالے جاتے ، جلسے اور سیمینارز منعقد کئے جاتے ہیں اسلام دشمنوں کے جھنڈے جلا کرمردہ باد ، زندہ باد کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ کرکے ہم سمجھتے ہیں کہ بس ہم نے اپنا فرض پورا کردیا ہے۔ 50برس کے عرصہ میں دنیا بھر کے مسلمان مجموعی طور پر مسئلہ فلسطین کے حل کےلئے لاکھوں قرادادیں پاس کرچکے ہیںلیکن یہ قرادادیں کیا ہیں؟ محض کاغذ کے پرزے ہیں جن کی کچھ بھی حیثیت اور اہمیت نہیں۔ اس لئے کہ آج کی مہذب دنیا میں بھی قوموں کو تلوار کی دھار سے ذبح کیا جا رہا ہے۔ 
یہ بھی عجب طرفہ تماشا ہے کہ جس جنرل اسمبلی کے کہنے پر ہم ہر سال اہل فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن مناتے چلے آرہے ہیں اسی جنرل اسمبلی نے29نومبر 1947ءکو ایک قرداد منظور کی جس کے نتیجے میں اسرائیل کے حق میں جنرل اسمبلی نے جو قرارداد منظور کی۔۔۔۔۔یہ دودھاری خنجر تھا جو عالم اسلام کے قلب میں پیوست کردیا گیا ۔اس قرارداد کی رو سے سرزمین فلسطین کو غیر منصفانہ طریقے سے دو حصوں میں تقسیم کردیا گیااور ایک حصے میں اسرائیل کے نام سے ایک ریاست قائم کردی گئی ۔اسی جنرل اسمبلی نے بعد میںفلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کادن منانے کی قراردادمنظور کررکھی ہے جو حقیقت میں کسی عالمی ادارے کے دوغلے پن سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی،کیونکہاہل فلسطین کے خلاف اسرائیل کی جارحیت آج بھی مسلسل جاری ہے۔

مزیدخبریں