شہباز سے متاثر تھا، بلاول ابھی ناتجربہ کار، پی ٹی آئی سے اتحاد کیلئے 6وزارتوں کی پیشکش ہوئی: زرداری

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) سابق صدر آصف زرداری نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کہا کہ اتحادی حکومت کا تجربہ کافی مشکل تھا۔ شہباز شریف سے میں متاثر تھا صبح 6 بجے اٹھتا ہے آٹھ بجے تک کام کرتا ہے۔ شہباز شریف کو کافی چیزیں کہیں جو نہیں مانیں جس سے ملک کو نقصان ہوا۔ دو ارب کی شوگر پڑی تھی، اجازت نہیں دی افغانستان سمگل ہو گئی۔ ہمیشہ خوردنی تیل درآمد ہوتا ہے اس پر پابندی لگا دی۔ ایک سوال پر کہا کہ پرویز الٰہی جیل میں اور بیٹا باہر بیٹھا ہے۔ بیٹے کو غیرت نہیں کہ واپس آ جائے۔ بہتر ہے کہ اس نہج پر چلیں کہ آگے بھی چل سکیں۔ ضروری نہیں کہ ن لیگ لیڈ کرے۔ دوسری جماعتیں اور شخصیات بھی ہیں۔ سیاست میری مجبوری ہے۔ ضرورت نہیں۔ سیاست ضرورت اس لئے ہے کہ بی بی، کارکنوں نے شہادت دی۔ ہم پر قرض ہے۔ بلاول بھٹو ابھی تربیت یافتہ نہیں، کچھ وقت لگے گا۔ بلاول بھٹو مجھ سے زیادہ ٹیلنٹڈ ہے لیکن تجربہ، تجربہ ہے۔ 18 ویں ترمیم کے بعد ہم نے تھر کے کوئلے کو ترقی دی۔ پیپلز پارٹی وہ کہتی ہے جو حقیقت ہے۔ انہیں چاہئے ہمیں موقع دیں۔ اب ہم اپنے لئے گیم لگائیں گے۔ پنجاب میں انہیں جہاں سہولت نظر آتی ہے وہاں چلے جاتے ہیں۔ بلوچستان میں مزید دوست آئیں گے۔ فائٹ ہو گی۔ ہم تیار ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کا جوڈیشل مرڈر ثابت ہو چکا ہے۔ بلوچستان میں دوستوں کی مجبوریاں ہیں۔ مجبوریوں کے تحت جہاں پروٹیکشن ملتی ہے دوست چلے جاتے ہیں۔ پی پی نے بلوچستان کے 9 اضلاع میں ڈسٹرکٹ کونسل جیتی ہے۔ محسن نقوی میرا بیٹا ہے۔ آج بھی کہتا ہوں نگران حکومت کا کام ہے زیادتی نہ ہو۔ جہاں زیادتی ہوئی ہے نشاندہی کرتے ہیں۔ اسلام آباد کی بیورو کریسی پاکستان میں نہیں کسی اور ملک رہتی ہے۔ صبح دفتر جاتے شام گالف کھیلتے ہیں۔ انہیں صوبوں کے بنیادی حقوق کا علم نہیں۔ جب سے 18 ویں ترمیم آئی ہے سات پل بن چکے، سڑکیں بنا چکے ہیں۔ ٹیکس سندھ دیتا ہے۔ ایک روز کیلئے بھی وفاق جانا پڑتا تھا۔ بلوچستان، خیبر پی کے بھی 18 ویں ترمیم کا دفاع کریں گے۔ 18 ویں ترمیم ٹارگٹ بنتی ہے پی پی دفاع کرے گی۔ ابھی بلوچستان پر مرہم رکھا ہے۔ بہت کچھ کرنا ہے۔ جب کریں گے تب الگ ٹھنڈی ہو گی۔ ہمسائے پیسہ لگا رہے ہیں کہ بلوچستان میں عدم استحکام ہو۔ اسے روکنا ہے۔ بہتر ہے اس نہج پر چلیں کہ آگے بھی چل سکیں۔ کوشش کی جائے کہ مسنگ پرسنز کا مسئلہ حل کیا جائے۔ ہماری انتخابی مہم شروع ہے۔ مجھے یقین ہے الیکشن آٹھ فروری کو ہوں گے۔ الیکشن مہم کیلئے ہم نے ہر جگہ جانا ہے۔ انتخابی مہم سیاسی جماعتوں کیلئے صحتمند ہوتی ہے۔ بلاول بھٹو سب کو بابے کہہ رہے ہیں صرف مجھے نہیں کہہ رہے۔ نئی پود کی سوچ ہے۔ ہر گھر کی سوچ ہے کہ ”بابا آپ کو کچھ نہیں پتا“۔ پارٹی کے امیدواروں کو ٹکٹ میں دیتا ہوں۔ ہم نے تلوار کو گندے انڈوں سے بچایا۔ گندے انڈوں نے تلوار لینے کی کوشش کی۔ آج کی نئی نسل کی اپنی سوچ ہے۔ انہیں سوچ کے اظہار کا حق ہے۔ میں کسی کو کیوں روکوں، روکوں گا تو اور مسئلے ہوں گے۔ بلاول کہے گا ”آپ سیاست کرو میں سیاست نہیں کروں گا تو میں کیا کروں گا؟۔ سیاست میں سیکھتے سیکھتے سیکھتے ہیں۔ مجھ سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں۔ میں نے کبھی انتقامی سیاست نہیں کی۔ میرے دور میں ایک بھی سیاسی قیدی نہیں تھا۔ آصف زرداری نے کہا کہ پی پی اس الیکشن میں اچھا خاصہ سرپرائز دے گی۔ پی ٹی آئی حکومت سے پاکستان کو نقصان تھا۔ چیئرمین پی ٹی آئی پاکستان اور دنیا میں تنہائی کا شکار ہو گیا تھا۔ میرے خیال میں وہی معیشت کا دشمن ہے۔ اس نے خانہ خراب کیا۔ اگر نہیں نکالتے تو آر او الیکشن پر آ جاتے۔ ایک فوجی ان کے ساتھ تھا۔ 6 وزارتیں کیوں لیتا میرے پاس اکثریت تھی۔ 6 وزارتوں کا کس نے کہا ضروری نہیں اس کا نام لوں۔ اس سوال پر کہا گیا 6 وزارتوں کا جنرل فیض حمید نے کہا۔ آصف زرداری نے کہا کہ ظاہری بات ہے جنرل فیض حمید ان کے ساتھ تھا۔ مجھے ملک سے باہر جانے کا کہا گیا۔ میرے ورکرز مجھ پر بہت اعتماد کرتے ہیں۔ اگر میں خود بھاگ جاتا تو ورکرز کو کیا کہتا۔ میرے خلاف نئے الزامات لگتے تھے۔ میں نے کبھی جواب نہیں دیا۔ یہ پولیس سٹیشن نہیں کہ ”گڈکاپ بیڈ کاپ“ کھیلا جائے۔ عدم اعتماد واپس لے لیتے تو پاکستان کے حالات بہتر نہیں بدتر ہوتے۔ نہ ایکسپورٹ تھی نہ زرمبادلہ، نہ دوست تھے جو مدد کر سکتے۔ ہر چیز میں ڈیفالٹ کر چکے تھے۔ کوئی پارٹی 172 کی اکثریت نہیں لے سکتی۔ اکثریت نہ لیگ نہ مولانا نہ کوئی اور نہ ہم پی پی لے سکتی ہے۔ جمہوریت تو کافی عرصے سے کمزور ہو رہی ہے۔ پارلیمنٹ کو اختیارات دینا دوست کو سمجھ نہیں آیا۔ انہوں نے میری چھٹی کرا دی۔ پی پی کے خلاف ہمیشہ اتحاد بنتے ہیں۔ فنکشنل لیگ نے ہمارے خلاف الائنس بنائے۔ ایم کیو ایم پہلے بھی ساتھ نہیں تھی اب بھی نہیں ہے۔ میاں صاحب سے سب ڈرتے ہیں بات نہیں کرتے۔ میرے سامنے سب بات کرتے ہیں۔ پارٹی منشور ہے۔ گلے سے پکڑتے ہیں۔ بہتر ہے کہ ہم دوبارہ بھی اکٹھے چلیں کیونکہ کوئی بھی جماعت تنہا اکثریت حاصل نہیں کر سکتی۔ ضروری نہیں ن لیگ لیڈ کرے۔ ہم نے پہلے ن لیگ کو موقع دیا اب ہمارا چانس ہے۔ اتحادی حکومت میں ایم کیو ایم کو گورنر کا عہدہ اور وزارتیں دیں۔ سندھ میں گورنر ہمارا بنتا تھا لیکن ایم کیو ایم کے ووٹوں کیلئے ان کا گورنر بنایا۔ توشہ خانہ سے بم پروف گاڑی مجھے یو اے ای نے گاڑی دی تھی۔ کرنل قذافی نے بھی مجھے بم پروف گاڑی دی تھی۔ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد درست فیصلہ تھا۔ مجھے یقین ہے 8 فروری کو الیکشن ہو جائیں گے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو نہ نکالتے تو وہ ایک فوجی کے ذریعے آر او الیکشن کرواتے۔ آر او الیکشن کے ذریعے چیئرمین پی ٹی آئی 2028ءتک حکومت بنا لیتے۔ پی ٹی آئی حکومت میں ہمیں 6 وزارتوں کی پیشکش کی گئی۔ جنرل فیض اور جنرل باجوہ کی سوچ مختلف تھی۔ پی ٹی آئی حکومت مائنس زرداری پیپلز پارٹی چاہتی تھی۔ مجھے ملک سے باہر جانے کا کہا گیا۔ میرے خلاف 14 سال پرانے کیس ختم ہوئے۔ عمران خان کی مہربانی والے کیس ختم نہیں ہوئے۔ مجھ پر نئے کیس نواز شریف نے نہیں عمران خان نے بنائے تھے۔ ایک دوسرے کی جنگ رہی ہے۔ جنگ کرائی گئی اور چہرہ مسخ کیا گیا۔ عمران کے دور میں 6 ماہ قید کاٹی۔ اقتدار ملا تو وزیرخزانہ پارٹی کے اندر سے آئے گا۔ ہم پی ٹی آئی کے خلاف نہیں صرف ایک شخص کے خلاف ہیں۔ پی ٹی آئی الیکشن لڑے گی۔ انتخابات میں بھی ہوں گے۔ آصفہ بھٹو جہاں سے الیکشن لڑنا چاہے لڑے، بہت مضبوط امیدوار ہیں۔ آصفہ بھٹو اپنی ماں کی طرح غصے میں تیز ہے۔ آصفہ بھٹو کے غصے سے ڈر نہیں لگتا پیار آتا ہے۔ ہم اپنی پارٹی کے الیکشن پر بات کر سکتے ہیں دوسری پارٹی کے الیکشن پر نہیں۔ ہم ن لیگ کے ساتھ نہ چل سکیں، ن لیگ ہمارے ساتھ نہ چل سکے یہ بات وقت سے پہلے ہے۔ آئندہ الیکشن کے نتیجے میں مخلوط حکومت بنے گی۔ پارٹی الیکشن پرچی پر نہیں عوام کی رائے پر ہوتا ہے۔ فرحت اللہ بابر نے سیکرٹری جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے ۔ وقت کا تقاضا ہے۔ عمر ہے اس لئے استعفیٰ دیا۔ آصف زرداری سے سوال کیا گیا کہ بلاول پھر صحیح کہتا ہے بابے گھر جائیں؟۔ آصف زرداری نے کہا کہ جا رہے ہیں۔ فرحت اللہ بابر گئے نا۔ فرحت اللہ بابر پارٹی میں رہیں گے۔ کسی اور حیثیت سے کام کریں گے۔ لوگ روزگار کیلئے باہر جا رہے ہیں۔ مٹی سے سب کو پیار ہے۔ لوگ پاکستان سے بیرون ملک جائیں گے تو ترسیلات زر آئے گی۔ فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتا ہوں۔ جس طرح کشمیر شہ رگ ہے فلسطین بھی شہ رگ ہے۔

ای پیپر دی نیشن