نسیم الحق زاہدی
صوبائی وزارت داخلہ بلوچستان نے 15اکتوبر 2024ءکو وفاقی حکومت کو ایک درخواست دی تھی کہ بلوچستان میں امن وامان برقرار رکھنے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان آرمی کے 31یونٹس اور فرنٹ ئیر کور(ایف سی) کے 107ونگزصوبہ بلوچستان میں تعینات کیے جائیں جس پر وفاقی حکومت نے پاک فوج اور ایف سی کے دستوں کو14 اکتوبر 2025ءتک کے لیے صوبائی حکومت بلوچستان کی معاونت کے لیے تعینات کرنے کی منظوری دیدی ہے جو کہ ایک نہایت خوش آئندہے۔یہ فیصلہ پاکستان کے آئین 245ضابطہ فوجداری 1898ءکے سیکشن 131اے اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء کے سیکشن 4اور5کے تحت کیا گیا ہے۔آرٹیکل 245کیا ہے؟اس آئین کے آرٹیکل کے تحت سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج کو طلب کیا جاسکتا ہے۔اس آرٹیکل کے تحت فوج کے فرائض متعین کیے گئے ہیں۔اس شق کی ذیلی تین شقیں ہیں۔شق1۔کے تحت وفاقی حکومت کی طرف سے جاری شدہ کسی ہدایت کے جواز کو کسی عدالت میں زیر اعتراض نہیں لایا جائے گا۔شق2۔کوئی عدالت عالیہ کسی ایسے علاقے میں،جس میں پاکستان کی مسلح افواج فی الوقت آرٹیکل 245کی تعمیل میں شہری حکام کی مدد کے لیے کام کررہی ہوں،آرٹیکل 199کے تحت کوئی اختیار سماعت استعمال نہیں کرے گی،مگر شرط یہ ہے کہ اس شق کا اس دن سے عین قبل جس پر مسلح افواج نے شہری حکام کی مدد کے لیے کام کرنا شروع کیا ہو،کسی زیر سماعت کاروائی سے متعلق عدالت عالیہ کے اختیار سماعت کو متاثر کرنا مقصود نہیں ہوگا۔شق3۔کسی علاقہ سے متعلق کوئی کاروائی جسے اس دن یا اس کے بعد دائر کیا گیا ہو،جبکہ مسلح افواج نے شہری حکام کی مدد کے لیے کام شروع کیا ہو اور جو کسی عدالت عالیہ میں زیر سماعت ہو،اس عرصے میں معطل رہے گی۔وزارت داخلہ کی جانب سے یہ تعیناتی صوبہ بلوچستان میں جاری سیکورٹی چیلنجوں کے جواب میں کی گئی ہے،فوج اور ایف سی عسکریت پسندی،فرقہ واریت تشدد اور ٹارگٹ کلنگ سے نمٹنے اور خطے میں امن واستحکام کو برقرار رکھنے میں قانون نافذ کرنے والے سویلین اداروں کی مدد کریں گے۔یہ پہلی بار نہیں کہ فوج کو بلوچستان میں داخلی سلامتی کے فرائض کے لیے تعینات کیا گیا صوبے میں شورش اور عدم استحکام کی ایک طویل تاریخ ہے اور فوج کو اکثر نظم وضبط برقرار رکھنے کے لیے مدد کے لیے کہاجاتا رہا ہے۔فوج اور ایف سی نے ہمیشہ اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھایا ہے۔سیکشن 4اور5کے تحت حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ فوج اور ایف سی کو بلوچستان جیسے حساس علاقوں میں تعینات کرے،واضح رہے یہ اختیارات ان کے لیے ضروری ہیں تاکہ وہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی یا تشدد کے خلاف موثر طریقے سے کاروائی کرسکیں۔یہ فیصلہ اس بات کاثبوت ہے کہ حکومت ان خطرات کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اور عوام کی حفاظت کو اپنی ترجیحات میں شامل کررہی ہے۔آرٹیکل 245کے نفاذ کا مقصد یہ ہے کہ عوام کو یہ یقین دلایا جائے کہ ریاست ان کی حفاظت کے لیے موجود ہے۔یہ آرٹیکل اس وقت نافذ کیا جاتا ہے جب ملک کی داخلی سلامتی خطرے میں ہو،خاص طورپر ایسے حالات میں جب دہشت گردی یا بغاوت کا سامنا ہو۔اس کے تحت حکومت کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ فوجی آپریشنز کے ذریعے عوام کی حفاظت کرے،کیونکہ بہت سے ایسے واقعات ہیں جن کے پیش نظر یہ آرٹیکل انتہائی ضروری ہوچکا تھا،جیساکہ موسیٰ خیل بس کا واقعہ جس میں 23بے گناہ افراد کو شہید کیا گیا،پھر پنجگور میں 7نہتے پنجابی مزدوروں کا بہیمانہ قتل،حال ہی میں مستونگ میں معصوم بچوں پر حملہ۔یہ سب کچھ دہشت گرد تنظیموں کی وجہ سے ہوا۔ان دلخراش واقعات نے نہ صرف متاثرہ خاندانوں کو بلکہ پورے علاقے،پورے ملک کو صدمے میں مبتلا کیا۔اس حالات کے پیش نظر آرٹیکل 245کا نفاذ ایک اہم اقدام ہے تاکہ سیکورٹی فورسز ان ملک دشمن عناصر کا قلع قمع کرسکیں۔دوسری طرف نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی نے بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جامع فوجی آپریشن کی منظوری دیدی ہے جو کہ بلوچستان میں جاری دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نہایت ضروری ہوچکا تھا۔وزیر اعظم پاکستان کی زیر صدارت اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی کابینہ،صوبائی وزرائے اعلیٰ،آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور اعلیٰ سرکاری حکام نے شرکت کی۔اجلاس کا ایجنڈا پاکستان کی انسداد دہشت گردی مہم کو دوبارہ فعال کرنے پر مزکور تھا،جس میں شرکاءکو سیکورٹی صورتحال،دہشت گردی اور دیگر اہم چیلنجز بشمول امن وامان کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔جس میں قوم پرستی،مذہبی انتہا پسندی کو بھڑکانے کی کوششوں کے خلاف کاروائیاں،غیر قانونی اسپیکٹرم اور جرائم اور دہشت گردی کے گٹھ جوڑ سے نمٹنے،تخریب کاری اور غلط معلومات کی مہمات سمیت دیگر امور شامل ہے۔کمیٹی نے ان چیلنجز سے موثر طریقے سے نمٹنے کے لیے متحد سیاسی آواز،قومی بیانیے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ قومی اتفاق رائے،ویڑن کے تحت قومی انسداد دہشت گردی مہم دوبارہ فعال کرنے کے لیے اہم ہیں۔اجلاس میں نیشنل کاو¿نٹرٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا)کو فعال کرنے اور قومی اور صوبائی انٹیلی جنس اور تھریٹ اسسمنٹ سنٹر کے قیام پر بھی اتفاق کیا گیا۔کمیٹی نے بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف)اور بی آر اے ایس کے خلاف ایک جامع فوجی آپریشن کی منظوری دی گئی کیونکہ یہ دہشت گرد تنظیمیں دشمن بیرونی طاقتوں کی ایما ء پر عدم تحفظ پیدا کرکے پاکستان کی معاشی ترقی کو متاثر کرنے کے لیے معصوم،بے گناہ مقامی شہر یوں،آبادیوں،غیر مقامی مزدوروں اور غیر ملکیوں کو نشانہ بنارہی ہیں۔ دہشت گردتنظیمیں،اپنی سہولت کاربلوچ یک جہتی کمیٹی جیسی جعلی آرگنائزیشن کے ذریعے تعلیم یافتہ بلوچ نوجوانوں کو ریاستی مظالم کی جھوٹی کہانیاں سناکر گمراہ کرکے انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کررہی ہیں،خواتین کو جذباتی کرکے انہیں خود کش حملے کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے،گرفتار ہونے والی خود کش بمبار عدیلہ بلوچ نے بتایا تھا کہ کس طرح اسے ورغلاکر اپنے جال میں پھنسایا گیا اور پھر بلیک میل کرکے اسے خود کش حملہ کرنے پر مجبور کیا گیا۔گذشتہ دنوں ضلع کیچ میں سیکورٹی فورسز کا کامیاب آپریشن،چار دہشت گرد واصل جہنم ہوئے جس میں بی ایل اے ”مجید بریگیڈ“کا انتہائی مطلوب دہشت اور سرغنہ ثنا باروبھی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔واضح رہے کہ یہ دہشت گرد تنظیمیں بلوچیت کا لبادہ اوڑھ کر بلوچ قوم کی نسل کشی کررہی ہیں۔