ٹی ٹاک …طلعت عباس خان ایڈووکیٹ
takhan_column@hotmail.com
وی پی این ( ورچوئل پرائیوٹ نیٹ ورک) کے استعمال کو اسلامی نظریاتی کونسل نے غیر شرعی قرار دے کر ماضی کے فتوو¿ں کی یاد تازہ کر دی گو کہ اب یہ فتویٰ یو ٹرن کی نذر ہو چکا ہے لیکن بیان نے پیالی میں طوفان برپا کئے رکھا۔ فتویٰ دینے والے بھی کہا جاتا ہے یہ'' شرعی ٹھیکدار'' ہوتے ہیں جو کسی خاص مقصد کیلئے فتویٰ جاری کرتے ہیں۔ وی پی این اور فتویٰ دونوں گوروں کی ایجاد ہیں۔ اسے غیر شرعی کا فتویٰ دینے کے بجائے فون ہیکروں پہ فتویٰ دے دیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ فون ہیکر وہ مخلوق ہے جو فون کے ذریعے حرام پیسے بناتے اور لوگوں کی زندگیاں اجیرن کرتے ہیں۔ ہیکر فون نمبر سے آپ کے جاننے والوں کو آپ کے ہی جانب سے فون پر میسج لکھتے ہیں ، رقم کیلئے کال کرتے ہیں۔( رقم تین چار لاکھ سے چار پانچ ہزار تک بھی ہو سکتے ہیں )۔ اب سائنس نے ترقی کر لی ہے جس سے اپ کی اواز جیسی ایپ سے دوسروں کی آواز کی کاپی کرتے ہیں۔ اپ سمجھتے ہیں یہ وہی ہے جس کے نمبر سے کال آئی ہے۔جب کہ ایسا نہیں ہوتا۔اپ اس کا رونا سن کر اسے رقم بھیج دیتے ہیں۔ ایسا چند روز قبل ہمارے سینیر محترم ساتھی سید منظور گیلانی ایڈووکیٹ اور سیاسی شخصیت کے مالک ہیں ان کا فون ہیک ہو گیا۔ جس کا بھر وقت پتہ چل جانے سے ان کے دوست عزیز و اقارب کسی مالی نقصان سے بچ گئے۔سابق جسٹس وجیہ الدین کا بھی فون ہیک ہو چکا ہے۔ دن بدن ہیک ہونے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے لہزا ہوشیار رہیں۔یاد رہے جس کا فون ہیک ہوتا ہے اسے نقصان نہیں ہوتا البتہ وہ پریشان ضرور ہوتا ہے جبکہ بعض اوقات ان کے دوست احباب کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔لہذا سب سے گزارش ہے کہ جب بھی ایسا کوئی میسج اپ کے کسی جاننے والے کا ملے یا فون کال آئے اس پر انکھیں بند کر کے فوری عمل نہ کریں۔ بلکہ اپنے کسی دوسرے ذرائع سے کنفرم کر لیا کریں کہ واقع ہی یہ شخص کسی مشکل میں ہے اسے پیسوں کی ضرورت ہے یا کسی نے انکا فون ہیک کر لیا ہے۔جس کا فون ہیک ہو جا? وہ فوری طور پر سائبر کرائمز کے کسی قریبی افس چلا جائے۔ اپنے فون ان سے دوبارہ بحال کرائیں۔ ہیکر نے جس سے رقم اپ کے فون سے لے لی ہے وہی سائبر کرائم میں اپنی ایف آر درج کرا کر کبھی کبھی ہیکروں سے رقم واپس لی جا سکتی ہے۔زیادہ تر یہ ہیکزحضرات کچے کے علاقوں سے یہ وارداتیں کرتے ہیں۔ آپ اس سے بچنے کیلیے فوری پریشان نہ ہوں ہوش حواس کو قائم رکھیں۔کسی کو بھی فوری پیسے نہ بھیجیں۔ جس کا بھی فون ہیک ہو وہ فوری سائبر کرائم سے رابطہ قائم کیا کرے۔ ان حالات میں فتویٰ ان ہیکروں کے خلاف دینا بنتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا یہ ان ہیکروں کے خلاف بھی اسلامی نظریاتی کونسل والے فتویٰ دیتے۔ ان کے خلاف بھی فتویٰ دیتے جو اشیائ میں ملاوٹ کرتے ہیں کم تولنے ہیں، انسانوں کا قتل عام کرتے ہیں، آئین اور قانون کے تحت فیصلے نہ کرنے والے ججز پر زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف اسلام سے خارج ہونے کا فتویٰ دیتے تو سماج میں بہتری آتی یا پھر یہ ان لوگوں کے خلاف فتویٰ دیتے جو بزنس کے نام کے ساتھ اسلامی نام لکھ کر دو نمبر بزنس کرتے ہیں ان کے خلاف فتویٰ دیتے تو بہتری دیکھنے میں آتی۔دنیا ساری میں فتویٰ دینے والے ایسے لوگ ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ جن کا کام فتویٰ دینا ہوتا ہے۔ ان کا فتویٰ اس وقت بھی آیا تھاجب فوٹو کیمرہ یہاں نیا نیا آیا تو اس پر بھی تصویر بنانے کے حوالے سے فتویٰ دیا گیا تھا، فتویٰ دینے والے کہا کرتے تھے کہ تصویر بنانا اتنا ہی حرام ہے جتنا بت پرستی کرنا، کیوں کہ تصویر بھی ایک بت کی مانند ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے اب وہی فتویٰ اب اسلامی نظریاتی کونسل نے فتویٰ دیا تھا کہ ''وی پی این'' لگانا انٹرنیٹ استعمال کرنا حرام ہے اور اس کا استعمال کرنے والا گناہ گار ہو گا۔ یہ جہالت کے سوا کچھ نہیں لگتا۔ ایسے علمائ کو تاریخ میں کبھی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا جاتا… امام احمد بن حنبل نے خلیفہ المامون کے درباری علماء کے کچھ فرمائشی فتوں کو مسترد کیا تو حکمرانِ وقت نے اپنے ہاتھ سے ان کا سرقلم کرنے کافیصلہ کیا۔ اس سے قبل کہ المامون ان کا سرقلم کرتاحکمرانِ وقت کی موت واقع ہوگئی۔ اس کے مرنے کے بعد اس کا بھائی معتصم باللہ خلیفہ بن گیا۔ اس نے اپنے دربار میں امام احمد بن حنبل کو اپنے سامنے کوڑے لگوائے۔ امام احمد بن حنبل روزے سے تھے، کوڑے کھاتے کھاتے بے ہوش ہو گئے لیکن حکمران ِوقت کے سامنے سر جھکانے سے انکار کیا۔ بے ہوشی کی حالت میں انہیں رہا کردیا گیا۔ انہوں نے نماز ظہر ادا کی۔ شام کو روزہ افطار کیا اور کوڑے مارنے والے جلادوں کو معاف کردیا لیکن انہوں نے معاف نہیں کیا تو ان ''درباری علمائ'' کو جنہوں نے حکمران وقت کی خوشنودی کیلئے فرمائشی فتوے دئے تھے۔لوگ انہیں بھولے نہیں۔ ایسے فتویٰ دے کر علما شریعت کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ پھر یہی نہیں اگر ہم آج مغربی دنیا سے پیچھے ہیں تو اس میں بھی کہیں نہ کہیں ان بعض ناسمجھ جاہل مولانا حضرات کا ہاتھ ضرور ہے ، جیسے عثمانی دور میں سب سے پہلے چھاپہ خانہ یعنی پرنٹنگ پریس کو حرام قرار دیا گیا۔ا?س وقت کہا جاتا تھا کہ یہ شیطانی مشین ہے، اسی بنیاد پر پرنٹنگ پریس کو 5 سو سال تک مسلم ممالک میں داخل نہ ہونے دیاگیا ،ہاتھ سے لکھی ہوئی کتابوں سے کام چلایا جاتا رہا کہ اس سے اسلامی آرٹ خطاطی اور کتابت کو نقصان نہ پہنچے۔ جب بغداد پر ہلاکو خان نے حملہ کیا تو ا?س وقت علمائے کرام کے درمیان مناظرہ ہو رہا تھا کہ ''کوا'' حرام ہے یا مکروہ۔ پھر اسلامی ممالک میں ''گھڑیال'' کو لایا گیا تو کہا گیا کہ یہ سورج اور چاند کے متبادل کوئی چیز آگئی ہے، اس لیے اسے بدعت قرار دیا گیا اور ولی عہد نے اسے چوراہے میں رکھ کر توڑ ڈالا تھا مگر آج ہر عالم دین نے یہ گھڑی باندھی ہوئی ہے۔ پھر ریڈیو آیا تو علماء نے اس پر بھی فتویٰ دیا تھا کہا کہ یہ شیطانی آواز ہے، اس کا سننا حرام ہے، اس طرح جب ٹی وی آیا تو ایک مذہبی جماعت نے اسے سرعام توڑ کر ثواب بھی حاصل کیا۔حدتو یہ ہے کہ پینے والی کافی تک کو بھی کافر قرار دیا گیاتھا ،ترکی میں کافی پر فسادات ہوئے بعد میں پتہ چلا کہ کافی تو مغرب سے آتی ہی نہیں یہ تو افریقن مسلم ممالک سے آتی ہے۔ پھر پینٹ کوٹ پہننے، انگریزی سٹائل کے بال کٹوانے اور لاﺅڈ سپیکر تک پر اعتراضات اور فتویٰ دیے گئے کہا جاتا ہے کہ 1857 کی جنگ آزادی میں انگریزوں کے حق میں فتوے دیے گئے تھے۔کہا جاتا ہے کہ انگریزوں نے ہی مدرسوں کو وظیفے دے کر سرکاری مولوی پیدا کیے، بلکہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جتنے بھی فرقے بنے ہیں وہ انگریز دور میں ہی بنے اور سارے انگریز کے فنڈز سے بنے اور چلے حتیٰ کہ ایک بڑا فرقہ بھی انگریز کے دور میں شروع ہوا، آپ ان سے جس دور میں مرضی اور جیسا مرضی فتویٰ لے لیں۔ ابھی حالیہ تاریخ بھی آپ پڑھ لیں کہ ہمارے چند علمائے کرام حکومت وقت کے لیے راستے نکالتے نظر آتے ہیں، کبھی وہ احتجاج کو غیر شرعی قرار دے رہے ہوتے ہیں تو کبھی وہ اپوزیشن کی کسی کارروائی کو۔۔جنرل مشرف کے دور میں بے نظیر بھٹو کو عوام انہیں وزیر اعظم بننا چاہتی تھیں تو انہی روکنے کے لیے درباری علما سے فتویٰ لیا گیا کہ عورت کی حکمرانی حرام ہے۔ بہرحال ان کے ایسا کرنے کی وجہ سے عوام اور علمائے کرام کے درمیان ایک بڑی خلیج پیدا ہوگئی تھی، عوام کا علمائ سے اعتماد ختم ہو گیا تھا جس کا ہمیں مذہبی طور پر نقصان ہوا سمجھ نہی اتی کہ ہم ٹیکنالوجی کے دشمن کیوں ہیں؟ جو بھی نئی ایجاد سامنے آتی ہے اس کے خلاف فتویٰ کیوں آجاتا ہے۔لگتا یہی ہے کہ فتویٰ بھی ایک ہتھیار ہے۔ جسے ضرورت پڑنے پر استعمال میں لایا جاتا ہے۔ اگر فتویٰ لگانا ہے تو فون ہیکروں پر، منی لانڈرنگ فارن فنڈنگ کرنے والوں پر کرپشن کرنے والوں پر ، کمیشن لینے پر لگایا کریں۔جن ممالک میں فتویٰ دینے والے ٹھیکدار موجود ہیں وہاں کے ممالک ترقی میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور جگ ہنسائی میں ایسے ممالک سب سے آگے ہیں!!