دنیا سے بے رغبتی

اللہ تعالیٰ نے بندوں کو دنیا میں اپنی بندگی کے لیے بھیجا۔ لیکن بندہ اپنا اصل مقصد چھوڑ کر دنیا کی ظاہری رنگینیوں میں مبتلا ہو جائے تو پھر اس میں اس کے لیے کوئی بھلائی نہیں کیونکہ کہ دنیا کا مال نہایت قلیل اور ختم ہونے والا اور زوال پذیر ہے۔اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اس کی کو ئی اہمیت نہیں۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی حثییت مچھرکے پر کے برابر بھی نہیں ہے۔ اس لیے بندے کو چاہیے کہ وہ دنیا سے دل نہ لگائے اور دنیا کی محبت کو اپنے دل سے نکال دے۔ 
دانشوروں کا قول ہے کہ شریف وہ ہے جس کو دنیا کی محبت رنج و تکلیف میں نہ ڈالے کیونکہ دنیا کی مکروہات میں مبتلا ہو کر آدمی کسی کام کا نہیں رہتا۔ بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ جس کو دنیا مل جائے اور وہ اس کو حاصل کرکے خوش ہو تو اس سے بڑا احمق کوئی نہیں ہے۔
 حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : کیا کوئی ایسا شخص ہو سکتا ہے کہ وہ پانی پر چلے مگر اس کے پاﺅ ں گیلے نہ ہوں۔ صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ نہیں۔آپ نے فرمایا دنیا دار گناہوں سے نہیں بچ سکتا۔ ( بہیقی ، شعب الایمان) 
یعنی جو دنیا میں مبتلا ہو گیا اس کے لیے گناہوں سے بچنا ممکن نہیں۔ اس لیے ضرورت سے زیادہ مال جو اللہ تعالی کی یاد سے انسان کو غافل کر دے اور انسان کو متکبر بنا دے نقصان دہ ہے۔
 حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا : جس شخص نے حلال دنیا (روزی)
تلاش کی تا کہ گدا گری سے بچے ، اپنے گھر والوں کی خدمت اور پڑوسی کے ساتھ تعاون کرے وہ اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن اس حال میں ملے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہا ہو گا اور جس نے دنیا اس لیے طلب کی کہ وہ اپنا مال فخر ، تکبر اور دکھاوے کے لیے بڑھائے تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس سے سخت ناراض ہو گا ( مشکوة شریف)۔
 حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا: جب بندہ دنیا سے بے رغبتی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل میں حکمت کا چشمہ جاری کر دیتا ہے۔ اس سے اس کی زبان میں گو یائی عطا کرتا ہے اسے دنیا کے عیوب اس کی بیماریوں اور اس کے علاج سے آگاہ کر دیتا ہے۔اور اسے دنیا سے سلامتی کے ساتھ جنت کی طرف لے جاتا ہے۔(( بہیقی ، شعب الایمان)

ای پیپر دی نیشن