اسلام آباد پے در پے دھرنوں کی زد میں‘ شہری ہجرت کا سوچنے لگے۔
آج کیا ہوگا‘ یہ تو کوئی نہیں جانتا ‘ نہ حکومت کو خبر ہے نہ ہی احتجاج کرنے والوں کوکہ کیا ہو گا۔ مگر ایک بات سب دیکھ رہے ہیں اور سب کے علم میں ہے کہ اسلام آباد کو ایک بار پھر شہر ممنوع بنا دیا گیا ہے۔ آئے روز دھرنوں سے یہاں کے باسی تنگ آکر اب یہاں سے ہجرت کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ کئی کئی دن کنٹینروں سے پیدا ہونے والی رکاوٹوں کی وجہ سے شہر میں عملاً باہر نکلنا دشوار ہو جاتاہے۔ سڑکیں بند ہوں تو بندہ کیسے کہیں جا سکتا ہے۔ اگر حالات تصادم کی راہ اختیار کرلیں تو پھر ”ناجائے رفتن نہ پائے ماندن“ والا معاملہ درپیش ہوتا ہے۔ گھروں میں قید شہری مفت میں بنا کسی جرم کے آنسو گیس کی شدت سے متاثر ہوتے ہیں۔ کھانستے اور روتے نظر آتے ہیں۔ انہیں شاید اس شہر اقتدار میں رہنے کی سزا مل رہی ہے۔ اسلام آباد بسایا اس لئے گیا تھا کہ اسکی اشرافیہ کو عوامی ردعمل سے محفوظ رکھا جا سکے۔ یہاں حکمرانی کرنے والے طبقے امن ، سکون سے رہ سکیں ورنہ دہلی‘ پیرس‘ واشنگٹن‘ ماسکو‘ برلن‘ لندن جیسے بڑے بڑے دارالحکومت دیکھ لیں‘ گنجان آباد شہروں میں ہی موجود ہیں۔ انہیں الگ بسانے کا کسی کو خیال نہیں آیا۔ مگر ‘ جس چیز سے اس شہر کے باسیوں کو بچانا مقصود تھا‘ آج وہی خطرہ اس شہر پر بھی منڈلاتا نظر آتا ہے۔ وقفے وقفے سے یہاں کی حالت بھی پرانے دارالحکومت کراچی کی طرح بگڑتی نظر آتی ہے۔ دنگا فساد ویسے ہی ہوتا ہے تو پھر کیا فائدہ ملا اس طرح نیا شہر بسانے کا۔ اگر کراچی ہی بننا تھا۔
ضیاءالحق کے دور میں عروس البلاد کہلانے والے اس شہر نے پہلی بار دھرنے کا آغاز دیکھا جو آج فیشن بن چکا ہے۔
کس کی سنیں‘ بانی کی‘ چیئرمین یا مرشدانی کی‘ پی ٹی آئی والے مخمصے کاشکار۔
حضرت غالب نے بہت پہلے کیا خوب کہا تھا
آئے ہے بیکسی عشق پہ رونا غالب
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
اب جس کا جی چاہے ”بلا“ کو کرکٹ والا ”بلا“ کہہ لے کوئی پابندی نہیں ہے بلکہ اس سے شعر کا حسن اور بڑھ جائے گا۔ کچھ لوگ اسی لئے پریشان رہتے ہیں کہ اگر وہ نہ ہوئے تو کیا ہوگا‘ یہ ملک کون سدھارے گا۔ صرف میں ہوں جو یہ کر سکتا ہے۔ مجھ جیسا کوئی اور نہیں جو یہ کر سکے۔ اگر میں نہ رہا تو کیا ہوگا۔ اسی صورتحال پر چچا غالب کہتے ہیں
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
اس وقت بھی ایک سیاست دان خود کو پاکستان کے مسائل کے حل کی کنجی سمجھ رہا ہے اور اسے اپنی ذات ہی امرت دھارا نظر آتی ہے۔ سیاست میں آنے سے قبل شاید اسے اس بات کا ادراک نہ تھا پھر اچانک اسکے سرپرستوں نے اسے اپنا سبق پڑھایا۔ ملک و قوم کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا اور وہ سیاست دان خود کو مسیحا سمجھنے لگا۔ اپنے لئے مرشد اور بانی کا خطاب اور نعرے سن سن کر خوش ہونے لگا اور بھول گیا کہ بانی کا لفظ صرف حضرت قائداعظم محمدعلی جناح جیسے سچے ایماندار اور حقیقی رہنماءپر سجتا ہے۔ جو اس ملک کے بانی ہیں جہاں اب ہر ایک خود کو بانی یا ثانی کہلانا چاہتا ہے‘ ان میں سے کوئی بھی بابائے قوم بانی پاکستان کی خاکِ پا کے بھی برابر نہیں۔ اب اسی خودپرستی اور انا کا شکار اسکے عقل سے عاری پیرو کار جہالت کی بنا پر خاکم بہ دہن ” پھنے خان نہیں توپاکستان نہیں“۔جیسا مکروہ نعرہ لگاتے ہیں۔ ایک بار پھر کئی بار کی ناکام کوشش کے بعد آج دھرنا تماشہ ہو گا۔ موصوف خود بھی کہتے ہیں انکے پیروکار کہتے ہیں پہلے ان کو جیل سے رہا کیا جائے تو دھرنا نہیں ہوگا ورنہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ حکومت کہتی ہے یہ عدالت کا کام ہے کہ اسے چھوڑے یا نہ چھوڑے۔ یوں اسی کشمکش میں دونوں طرف سے جو اقدامات کئے جا رہے ہیں‘ اس سے چاروں طرف اضطراب پھیلا ہے۔ خود تحریک انصاف میں بھی ایک طرف بانی مرشد کے احکامات آ رہے ہیں‘ دوسری طرف پیرنی بی بی کے فرمودات جاری ہوتے ہیں۔ تیسری سمت علیمہ خان کا حکم آتا ہے۔ جن سے پوچھا گیا کہ کیا آج پیرنی جلوس میں شریک ہو نگی تو انہوں نے کہا‘ ان سے جا کر پوچھیں۔ ادھر مرشد جیل میں بسی سے کبھی بشریٰ بی بی کو دیکھ رہے ہیں کبھی علیمہ خان کو‘ کبھی علی امین گنڈاپور کو۔
انٹرنیشنل کرائم کورٹ کی طرف سے نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری۔
کئی خبریں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کو پڑھ کر یا سن کر بے ساختہ ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ انہی خبروں میں سے ایک یہ خبر بھی ہے۔ انٹرنیشنل کرائم کورٹ ہو‘ امریکی سپریم کورٹ یا کوئی اور عالمی عدالت انصاف۔ کسی میں اتنی جرا¿ت کہاں کہ وہ غنڈہ گردی کے عالمی مجرم کو جو سفاک قاتل بھی ہے‘ گرفتار کرے۔ کہاں سے کریں گے اور کون کریگا۔ امریکی تحفظ کی چھتری تلے یورپی اتحادی ممالک کے اسلحہ سے لیس اسرائیل کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہ کر سکا۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں امریکہ ویٹو کرکے سب کا مذاق اڑا رہا ہے‘ عالمی برادری شرمندہ شرمدہ سی فلسطینیوں کاقتل عام روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ او آئی سی ہو یا عرب لیگ‘ یہ سب اتحاد امہ کے داعی ضرور ہیں مگر عملاً کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ انکی اسی کمزوری نے اسرائیل کو شیر کردیا ہے اور نیتن یاہو بخوبی جان گیا ہے کہ وہ اگر باقی کسی بھی اسلامی ملک پر غزہ کی طرح فوج کشی کرے یا شام ، ایران اور لبنان کی طرح بمباری تو بھی کوئی مسلم بلاک یا ملک کچھ نہیں کریگا۔ اس طرح اقوام متحدہ مغربی ممالک اور اسلامی امہ کی کمزوری سب پر عیاں کر دی ہے اور دنیا کو بتا دیا ہے کہ یہ سب درشنی پہلوان ہیں۔ ادھر امریکی سینیٹ نے اسرائیل کو اسلحہ روکنے کی قرارداد بھی مسترد کر دی ہے‘ یوں اسے لائسنس ٹ±وکِل جاری کر دیا ہے تو بھلا اس سر پھرے ملک کے وزیراعظم کو
کون سی طاقت یا فوج ہے جو گرفتار کر سکتی ہے۔ اب یہ وارنٹ گرفتاری کا فسانہ لوگوں کی تفریح طبع کیلئے ویسے بھی ایک زبردست لطیفہ ہی تو ہے۔
فقیر کے اکاﺅنٹ سے 10 لاکھ کا غبن کرنے والے بنک منیجر کی ضمانت منظور۔
اب ایسے لکھ پتی فقیر کے لٹنے پر ہم ساغر صدیقی کا شہرہ آفاق شعر بھی نہیں کہہ سکتے کہ:
جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
کیونکہ لاکھوں روپے جن کے اکاﺅنٹ میں ہوں‘ وہ بھلا فقیر کیسے ہو سکتے ہیں۔ یہ تو دراصل ان کا ذریعہ معاش ہے۔ اس فن میں یہ گداگر ماہر ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں اوسطاً سب سے زیادہ روزانہ کی آمدنی انہی کی ہے۔ جوبڑے بڑے اکاﺅنٹس کے مالک ہیں۔ اب عدالت نے بنک کے سابق منیجر کو جس نے ایک گداگر کے اکاﺅنٹ سے دس لاکھ روپے کا غبن کیا تھا‘ ضمانت دی ہے۔ اس پر گداگر مافیا کہیں مشتعل نہ ہو جائے کیونکہ وہ تو یہی کہیں گے کہ ایک فقیر کی حق حلال کی محنت کی کمائی پر ڈاکہ ڈالنے والے اس سابق منیجر کو قرار واقعی سزا دی جائے پریشانی کی بات بھی یہ ہے کہ آج کیا امیر کیا فقیر سب دھرنا اور مارچ کیلئے تیار ملتے ہیں۔ اب کہیں یہ مافیا بھی اگر صرف کراچی میں سڑکوں پر نکل پڑا تو ہزاروں نہیں لاکھوں گداگر کشکول تھامے‘ عدالت یا اس منیجر کے گھر کے باہر میلہ لگا سکتے ہیں۔ ‘ اس موقع پر بھی وہ دیہاڑی بھی لگاہی لیں گے۔ یہ سب لاکھ پتی گداگر تو کرائے کے غنڈے اور بندے منگوا کر اپنے احتجاج کو مزید سنگین بنا سکتے ہیں۔ خدا نہ کرے ایسا ہو‘ ورنہ بنکوں سے عوام کا اعتماد پہلے ہی اٹھ رہا ہے۔
اتوار‘ 21 جمادی الاول 1446ھ ‘ 24 نومبر2024
Nov 24, 2024