موجودہ جدید دور میں نہ دوستوں کے پاس دوستوں کے لیے وقت ہے اور نہ ہی ازلی دوست کتاب کی فکر، نئی نسل گوگل، واٹس ایپ، فیس بک، ایکس کی دلدادہ ہے کیونکہ یہی ذرائع ہیں جو انہیں نہ صرف مختلف مشکلات سے نجات دلاتے ہیں بلکہ معلومات کا ذریعہ بھی ہیں۔ اس جدیدیت پر ان کا ایمان پختہ ہے اس لیے تحقیق کے لیے کتابوں کی ورق گردانی کی زحمت نہیں کرتے، یہی نہیں فتوی بھی صادر فرما دیتے ہیں کہ،، گوگل،، سے دنیا کی ہر شعبے کی معلومات مل جاتی ہیں۔ اب کتابوں کا زمانہ لد گیا اسی لیے یہ نسل لائبریریوں کا بھی رخ نہیں کرتی۔ ان کا کہنا ہے کہ موبائل کی صورت میں دنیا ہمارے ہاتھ میں ہے تو کتابوں میں سر کھپانے اور وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بٹن دباو معلومات پاو۔ بھاری بھرکم کتابیں بس لائبریری کی زینت ہی بنی رہیں یہی ان کی اوقات ہے۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ گوگل گائیڈ ہی نہیں مس گائیڈ بھی کرتا ہے۔ حقیقی معلومات تاریخی حقائق اور سیاق و سباق کے ساتھ کتاب ہی فراہم کرتی ہے۔ آج اس کی بے توقیری ہو رہی ہے لیکن صدیوں کی کہانیاں تہذیب و تمدن سے آگاہی اور جنگ و جدل ہی نہیں فتح و شکست کی داستانیں کتاب ہی اپنے سینے میں دبائے بیٹھی ہے۔ اشرف المخلوقات کا حقیقی دوست کتاب ہی ہے۔ ہم جدیدیت میں بہت جلدی کھو جاتے ہیں حالانکہ ہم ابھی تک ترقی پذیر ہیں، ترقی یافتہ نہیں۔ ہمیں بفضل خدا آسمانی کتاب بھی ملی جو ہمارا ضابطہ حیات ہے۔ ہمیں تعلیم و تربیت اور علم حاصل کرنے کی تاکید بھی کی گئی۔ ہماری اسلامی تاریخ میں ایسی ایسی تحقیقی کتب موجود ہیں جنہیں ماضی کی ان شخصیات نے ضبط تحریر کیا جنہیں کسی بھی دور میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم جو اختلافی اور باعث تنقید ہیں ان کے جواب میں بھی بلند پایہ اور منفرد کتب موجود ہیں۔ پھر بھی ہم اور ہماری نئی نسل جدیدیت کے سمندر میں بہہ گئی اور اپنے اسلاف سے بھٹک گئی۔ آج کے دور میں کتابیں لکھی بھی جا رہی ہیں چھپ بھی رہی ہیں۔ اچھا ہی نہیں بہت اچھا کام بھی کیا جا رہا ہے لیکن ہم بھیڑ چال کا شکار ہو کر کوے کی طرح ہنس کی چال چل پڑے اور اپنی بھول گئے۔ یہی وجہ ہے کہ بے توقیری اس نہج پر پہنچ گئی کہ کتابیں فٹ پاتھ پر اداس پڑی ہیں، اپنے قدردانوں کا انتظار کر رہی ہیں اور پاوں کی زینت جوتے خوبصورت شو کیس میں منہ چڑاتے نظر آتے ہیں۔ کسی ناقدری کی وجہ سے ہزاروں میں چھپنے والی کتابیں اب سینکڑوں تک محدود ہو گئی ہیں۔ 25 کروڑ کی آبادی میں باصلاحیت لکھاریوں منفرد شعراءکرام ڈرامہ رائٹرز ناول نگار اور افسانہ نویس گنتی کے ہیں تاہم شوقیہ منشیوں کی تعداد ان سے زیادہ ہے جو معاشرے میں اپنا قد بڑا کرنے کی بیماری میں رقم خرچ کر کے صاحب دیوان اور صاحب کتاب بن جاتے ہیں۔ بلکہ وہ اس درجے کے لکھاری ہیں کہ انہیں میں اور آپ معاوضہ دے کر صاحب دیوان اور صاحب کتاب ہونے کا نہ صرف شرف حاصل کر سکتے ہیں بلکہ اگر چاہیں تو ایسی کتب پر تھوڑی سی بھاگ دوڑ سیاسی اثر و رسوخ اور چمک دکھا کر قومی اور حکومتی اعزاز بھی اپنے نام کر سکتے ہیں۔ بس یہی وہ راز ہے کہ حقدار کو حق نہیں ملتا اور سیانے اپنی طاقتوری دکھا کر اپنے آپ کو نمایاں اور منفرد بنا کر قابل فخر منصب سرکاری مراعات کے ساتھ حاصل کر لیتے ہیں۔ ابھی تو کوئی نہیں پکڑا گیا
ہمارے ہاں تضاد بیانی اور منافقت عروج پر ہے جو کچھ نہیں ،وہ اپنی اسی خاصیت سے سب کچھ ہے۔ اندرونی اور بیرونی محاذ پر موجود، ممتازو معروف شخصیات کی زندگی میں پہلے پسند ناپسند ،حسد اور پاوں رکھ کر آ گے بڑھنے کی خواہش میں دنیائے ادب کے چال باز شاہکار قدم قدم پر طاقتور ہیں حقیقی ادیب ،شاعر اور لکھاری ابھی تک کسمپر سی میں زندگی گزارتے ہیں، تمام عمر کتاب دوستی اور کتاب کی پرورش کرتے ہیں لیکن جو نہی آنکھ بند ہوتی ہے دشمنی اندرون خانہ ہی نکل آ تی ہے۔ وہ بیگم صاحبہ جن کی پہچان ادب کو منفرد انداز میں تخلیق دینے والا شریک حیات تھا سب سے پہلے اس کی تحریر کردہ کتب اور ریفرنس کی وہ کتابیں جو اس نے جان سے پیاری سمجھ کر اکٹھی کر رکھی تھیں انہیں بےکار سمجھ کر ،،ردی،، کو اٹھا کر باہر پھینک دیتی ہے۔ میرے یار اسد شہزاد کو زندگی میں ہی یہی دکھ ہے کہ اس کا ایسا،، خزانہ،، سب سے پہلے گھر سے باہر نکالا جائے گا اور اسی کتاب دوستی میں اپنی پرخلوص، خوبصورت اور پل پل اس کے لیے فکر مند ہونے والی شریک حیات کو ،،کپتی،، کہنے کا رسک بھی لے لیا ،جو مجھے بالکل اچھا نہیں لگا۔ اس نے وصیت کر دی ہے کہ اگر اس کا وقت رخصت آ جائے تو اس کی کتابوں کا سارا ،،ذخیرہ،، کسی علمی ادارے یا لائبریری کو دے دینا، اس وصیت پر مجھے ممتاز ومعروف ادیب اے حمید یاد آ گئے۔ ان کے ناول، کہانیاں ،کالم رومانی داستانیں ایک نسل کے دلوں کی دھڑکن ہیں، میں جب بھی ان سے ملنے جاتا تو وہ میرے بچوں کے لیے رسالہ ،،تعلیم و تربیت اور کہانیوں،، کا تحفہ دیا کرتے تھے۔ وہ ایک منفرد اور خوبصورت زندگی کی اننگ کھیل کر جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ پہلے تو اپنوں نے مجھے اپنا نہ سمجھتے ہوئے اطلاع نہیں دی، حالانکہ ہم جب بھی ان کے پاس بیوی بچوں سمیت جاتے تو وہ بڑی آو بھگت کرتے تھے،شکل دیکھتے ہی اپنی محبوب ،،کپتی،، کو حکم صادر کرتے،، ناصر آ یا ہے، جلدی سے،، دم،، والی چائے اور خلیفہ کی خطائیاں لاو ،کیک رس بھی ہوں گے، نہیں تو لال کھو ہ والی برفی فریج میں پڑی ہے وہ لے آ و، اے حمید اپنے آ خری دور میں روزنامہ نوائے وقت اور کبھی کبھار ریڈیو پاکستان کے سوا کہیں نہیں جاتے تھے پبلشر، ٹی وی پروڈیوسر اور دیگر جو کچھ بھی لکھوانا چاہتے ان کے دولت خانے پر پہنچ جاتے تھے ان میں سے مجھے خصوصی محبت اور توجہ ملتی تھی بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ہر کسی سے اسی طرح پیش آ تے ہوں لیکن مجھے ایسی غلط فہمی تھی کہ جیسے مجھے خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ رحلت کے کچھ عرصے بعد میں وہاں گیا تو بیگم صاحبہ نے کہا ابھی تک میں نے ان کا کمرہ بالکل اسی طرح رکھا ہے جیسے وہ وہاں سو رہے ہوں، مجھے وہاں لے کر بھی گئیں، بیڈ پر پھول پڑے تھے اور سرہانے کی جانب انتہائی خوبصورت حمید صاحب کی تصویر رکھی تھی، بیگم صاحبہ نے کہا یہ حمید صاحب میری محبت ہیں، ہم نے،، لو میرج ،،کی تھی میں،، کینرڈ کالج،، میں پڑھتی تھی ،میں اب بھی اکیلے میں ان سے باتیں کرتی ہوں، میں نے کہا،، جناب محبت تو محبت ہوتی ہے،، ان کی یادیں آ پ کی زندگی کا سرمایہ ہیں، ان کی آنکھیں بھر آ ئیں، میں بہانے سے انہیں واپس ڈرائنگ روم میں لے گیا جہاں میری بیگم اور بچوں کے ساتھ مصروف ہو گئیں، پھر کہنے لگیں،، ناصر یہ بتاو حمید صاحب کی کتابوں کا کیا کروں؟ میں نےبرجستہ کہا یہ تو قیمتی خزانہ ہے اسے مجھے دے دیں ،میں کسی ادارے کے حوالے کر دوں گا لائبریری میں رکھ دوں گا، تو وہاں اے۔حمید کے نام سے،، کارنر ،،بن جائے گا مجھے یاد ہے کہ اس ذخیرے میں ملک کے نامور اور ممتاز ادیبوں کی کتب میں ان کے،، آ ٹوگراف،، موجود تھے، بیگم صاحبہ نے حامی بھر لی اور میں تھوڑی دیر کے بعد چلا آ یا، تقریبا ہفتے دس دن بعد مجھے اے۔حمید یاد آ ئے تو میں اکیلا ہی سمن آباد ان کے گھر چلا گیا بیگم صاحبہ بہت اچھے طریقے سے ملیں، صاحبزادے مسعود حمید بھی گھر پر موجود تھے موصوف ،،نیشنل کالج آ ف آرٹس ،،کے پروفیسر تھے، خاطر تواضع بھی حسب روایت ہوئی، اے۔ حمید صاحب کی باتیں اور یادیں بھی دہرائی گئیں۔ اٹھتے ہوئے میں نے پوچھا،، بیگم صاحبہ۔۔ آ پ نے کتابوں کی ذخیروں کے بارے میں کیا سوچا؟ تھوڑی سی خاموشی کے بعد بولیں، آ و تمہیں کمرہ دکھاوں، میں وہاں گیا تو،، رنگ ڈھنگ،، ہی مختلف تھا ،میری حیرانی پر بولیں،، ہر کوئی اعتراض کر رہا تھا کہ میں محبت میں کب تک کمرہ سجائے رکھوں گی؟ مرنے والے کے ساتھ کوئی مر نہیں جاتا‘ بس کرو‘ اپنی زندگی میں آ جاو۔ پھر میں نے اپنے دل پر پتھر رکھ کر کمرہ صاف کر دیا، میرا سوال تھا اور کتابیں؟ فرمانے لگیں،، میں نے ردی میں بیچ دیں ،میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی ، آ واز ابھری،، واہ ری محبت،، اسد شہزاد ہی نہیں ،مجھے بھی یقین ہے کہ ہمارے بعد بھی ایسا ہی ہوگا، اس لیے میں یہ جانتے ہوئے بھی کہ کتاب کسی کو دینا بے وقوفی ہے کیونکہ اس کی واپسی نہیں ہوتی، دوستوں کو دے دیتا ہوں،، صدقہ جاریہ،، سمجھتے ہوئے کہ یہ جہاں بھی جائے گی کوئی نہ کوئی اس کی ورق گر دانی ضرور کرے گا، میری ایک کتاب ہے،، بہاولپور سے چار کوس دور،، اس میں سے کچھ حوالے درکار تھے لیکن مجھے یاد نہیں آ یا کہ اس کا ،، آخری نسخہ،، کون یہ کہہ کر لے گیا کہ واپسی مشروط ہے لیکن آ ج تک واپس نہیں آ ئی۔ لہذا یہ کہہ کر دل کو تسلی دے دی کہ” کتاب دینا بے وقوفی ہے اور اس کی واپسی بڑی بے وقوفی ،،۔