حقیقتاً میں نے ظہور عالم کو تمام پہلوﺅں سے ایک اچھا مسلمان، ہمدرد اور کھرا انسان پایا۔ قائد اعظم، تحریکِ پاکستان اور علامہ اقبال ان کے وہ موضوعات تھے جس سے انہیں زندگی بھر گہری وابستگی رہی، ان موضوعات پر منعقد ہونے والے جلسوں، جلوسوں اور تقریبات میں شہید صاحب اپنی خطابت کے جوہر بھی دکھاتے تھے، اپنے موضوع کے لئے وہ پہلے سے تیاری کر لیتے تھے اور ایک چھوٹے سے کاغذ پر اپنی تقریر کے نکات قلم بند کر لیتے تھے، تقریر کے دوران وہ ان نکات سے پُوری مدد لیتے۔
عجب انداز تھا ان کا۔ وہ بعض موضوعات پر اپنے جونیئر ساتھیوں سے مدد اور مشورے لیتے اور اس طرح اس ”مشاورتی طریق“ سے وہ باتوں باتوں میں اپنے ان جونیئرز کو منظّم طریق سے سوچنے، سمجھنے اور غوروفکر کی عادت ڈالنے کی طرف راغب و مائل کردیتے، خود مجھ سے انہوں نے بارہا کئی اہم مسائل پر رائے طلب کی حالانکہ ”من دانم کہ من آنم“ اپنا مبلغِ علم خود سے تو بہرحال پوشیدہ نہیں ہوتا لیکن ان کے مخلصانہ اصرار پر اظہار خیال ضرور کیا، البتہ یہ بھید بعد میں کھلا کہ باتوں باتوں میں شہید صاحب کچھ پتے کی باتیں کرگئے ہیں، انہیں گرہ سے باندھ لیا۔ اس منفرد طریق سے انہوں نے مجھے بھی سیاسی واقعات اور صحافتی چشمکوں پر گہرائی اور گیرائی سے سوچ بچار کی ”لت“ ڈال دی۔
زندگی کے آخری برسوں میں شہید صاحب کو اور زیادہ قریب سے دیکھنے کا موقع ملا وہ اے پی این ایس (آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی) اور سی پی این ای (کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز) کے اجلاسوں میں شرکت کرنے کراچی، کوئٹہ، پشاور اور راولپنڈی جاتے تو انہیں ائیر پورٹ تک لے جانے اور واپسی پر ائیر پورٹ سے لانے کا اہتمام اسی خاکسار ہی کے سپرد ہوتا تھا۔ لاہور کی بہت سی تقریبات میں بھی شہید صاحب کو لانے لے جانے کا فریضہ راقم ہی ادا کرتا تھا۔ اس دوران میں نے دیکھا کہ شہید صاحب وقت کے نہایت پابند ہیں۔ وہ کھانے پینے کے معاملات و عادات میں بھی بڑے محتاط ہوگئے تھے اس کے ساتھ ہی دینی فرائض کی انجام دہی میں پہلے سے زیادہ مستعد، معاملات کی تہہ تک پہنچنے اور ان سے کوئی نتیجہ یا پہلو برآمد کرنے میں ان کی بالغ نظری بلندیوں پر تھی، کسی واقعہ یا وقوعہ کی تفصیلات و جزئیات ابھی آرہی ہوتیں لیکن شہید صاحب اس واقعہ یا وقوعہ کے سیاسی مضمرات کو تاڑ جاتے اور ان کے اثرات کا جائزہ لینے لگتے تھے۔ کوئی ایک گروپ کسی دوسرے گروپ کو نیچا دکھانے اور اپنا بول بالا کرنے کے لئے پَر تول رہا ہوتا توشہید صاحب ملکی سیاست و صحافت کے حوالوں سے اس کے نتائج پرکھنے لگتے۔ یہ حفظِ ماتقدّم ہرگز نہ تھا بلکہ مستقبل بینی کی دانش ورانہ صلاحیت تھی جو ان کے ہاں بڑی فراواں تھی۔چھوٹے اخبارات و جرائد کے مسائل و مشکلات حل کرنے کے لئے ان کی سوچ ہمیشہ بہت ہمدردانہ اور نہایت مثبت رہی۔ بہت سے ایسے امور جن پر ہم کبھی صدائے احتجاج بلند کرتے نظر آتے تھے تو اصلاً اس کے پس منظر میں ظہورعالم شہید کے مشورے اور تجاویز کارفرما و رہنما ہوا کرتی تھیں۔
ذاتی طور پر وہ عجز و انکسار کا پیکر تھے۔ ان کی شفقت، شرافت اور حلیم الطبعی کے سبھی معترف تھے۔ نوجوانوں کی ہمت بڑھانے میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہے اور آج ابلاغیات کا کوئی شعبہ ریڈیو، ٹی وی، اخبارات و جرائد ایسا نہیں جس میں شہید صاحب سے فیض یاب ہونے والے اہم فرائض اور ذمہ داریاں انجام نہ دے رہے ہوں۔ ان کی زندگی کا آخری دن بھی میرے ذہن پر آج تک نقش ہے، اس روز میں گیارہ بجے دن وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو سے ملاقات کے لئے ان کے دفتر واقع بیڈن روڈ سے انہیں ہوٹل پرل کانٹی نینٹل لے کر گیا تھا، اس دن وہ بڑے صحت مند، ہشاش بشاش اور ذہنی طور پر نہایت چاق چوبند نظر آرہے تھے۔ اپنے دفتر و گھر (کہ دونوں ایک ہی جگہ واقع تھے) سے پرل کانٹی نینٹل تک نوجوان صحافی سعید اظہر سے ان کی اٹھکیلیاں جاری رہیں۔ ہوٹل میں پہنچ کر وہ اپنی مقررہ نشست پر جا بیٹھے لیکن پھر وہاں سے اٹھ کر جناب مجید نظامی کی نشست پر گئے اور انہیں اے پی این ایس کے آئندہ انتخابات کے سلسلہ میں کچھ مشوروں سے نواز آئے۔
میں مجیب الرحمن شامی کے ساتھ ایک روزانہ قومی اخبار کے منصوبہ پر بات چیت کر رہا تھا تو انہوں نے اپنے مخصوص روایتی پیار بھرے انداز میں مجھ سے کہا ”شامی صاحب کی طرف منہ کرکے بات کرنے کے بجائے میری طرف رُخ کرکے بات کرو“۔
شہید صاحب جو خود بھی اپنا روزنامہ نکالنے میں گہری دلچسپی رکھتے تھے از راہِ تفنّن مجھ سے کہنے لگے ” لاکھوں کروڑوں روپے کے منصوبے کا صرف شامی صاحب کو بتاﺅں البتہ انہیں کم سے کم خرچ میں اخبار نکالنے کے نسخہ سے بھی آگاہ کردوں“۔
اس منصوبہ پر انکے بقول خود انہیں عمل پیرا ہونا تھا۔ بہرحال ذکر تھا پرل کانٹی نینٹل میں محترمہ بے نظیر بھٹو سے ملاقات کا اس گفتگو کے تمام اہم نکات شہید صاحب نے بڑی دلجمعی سے نوٹ کئے اس وقت اس عمل کے دوران کون جانتا تھا کہ شہید صاحب جو ان نکات کے لکھنے میں ہمہ تن محو تھے اپنی زندگی کا آخری دن گزار رہے ہیں۔ کھانے کے بعد جب یہ نشست برخواست ہوئی تو میں انہیں اپنی گاڑی میں ان کے دفتر تک لایا، گاڑی سے اترکر انہوں نے بڑی گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور پھر ڈرائیور کی طرف لپک کر اس سے بھی مصافحہ کیا کون جانتا تھا کہ یہ ان سے آخری مصافحہ ہے۔
شہید صاحب کے مجموعی کردار کو اگر چند الفاظ میں سمیٹنا ہو تو میرے خیال میں وہ علامہ اقبال کے اس مصرعہ کی چلتی پھرتی تصویر تھے،....
نرم دمِ گفتگو گرم دمِ جستجو
اقبال نے اس نرمی و گرمی کو مرد مومن کی سرشت و صفت قرار دیا ہے اور وہ شہید صاحب میں بدرجہ¿ اتم پائی جاتی تھی۔ کبھی کبھی تو خیال آتا ہے کہ اقبال نے یہ مصرع صرف شہید صاحب کے لئے کہا تھا،....
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے