پاکستان میں دہشت گردی ختم کیوں نہیں ہوتی 

ایک عرصہ دراز سے پاکستان خصوصاً خیبر پختونخواہ اور بلوچستان دہشت گردی کی زد میں ہیں ،پاکستان میں دہشت گردی ختم کیوں نہیں ہوتی ، کیا دہشت گرد زمین سے اُگتے ہیں یا زمین خود پیدا کرتی ہے ، اس معاملے کو سلجھانے کےلئے ہم نے گذشتہ چار سالوں پر محیط دہشتگردی کے واقعات ، رپورٹس اور تجزیوں کو تحقیق میں شامل کیا تو ایسے چشم کشاءحقائق سامنے آئے جو کہ پاکستان کی سلامتی کےلئے انتہائی خطرناک اور تشویش کا باعث ہیں ۔
جن واقعات کو میں اپنی تحریر میں ضبط کررہا ہوں ، یہ واقعات کوئی پوشیدہ نہیں ہاں اچنبھے والی بات ضرور ہے ، گذشتہ ایک سال کے دوران خیبر پختونخواہ میں دہشتگردی کے 660 ے زائد چھوٹے بڑے واقعات میں سینکڑوں افراد جاں بحق ہوئے ، ایک رپورٹ کیمطابق دہشتگردی کے سب سے زیادہ 140 واقعات شمالی وزیر ستان میں رونما ہوئے ، جبکہ ڈی آئی خان میں 81 جنوبی وزیرستان میں 49پشاور میں 56 اور باجوڑ میں دہشتگردی کے 56 واقعات رپورٹ ہوئے تھے ،پشاور پولیس لائنز میں خود کش دھماکہ دہشتگردی کا سب سے بڑا واقعہ تھا ، جس میں 90 سے زائد افراد شہید ہوئے تھے ، باجوڑ میں جے یو آئی (ف) کی کارنر میٹنگ میں خود کش دھماکے میں 54 افراد شہید اور 80 سے زائد زخمی ہوئے تھے ۔
 دو سال قبل قومی اداروں کی رپورٹ میں واضح کیا گیا تھا کہ سی ٹی ڈی خیبر پختونخواہ دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کر سکتی ، اسی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ صوبہ خیبر پختونخواہ میںگیارہ سال سے بر سر اقتدار پی ٹی آئی کی حکومت کے زیر انتظام دہشت گردی کے خاتمے اور مقابلہ کرنے کےلئے قائم محکمے میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ، افرادی قوت اور وسائل نہیں ہیں ، جسکی وجہ سے صوبے میں دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے حملوں کو روکنا ممکن نہیں رہا ، ایسی صورتحال کے پیش نظر سی ٹی ڈی خیبر پختونخواہ کی ہنگامی بنیادوں پر تنظیم نو ، وسائل کی فراہمی اور تربیت کے اقدامات کی سفارش کی گئی تھی ، ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی رپورٹ میں ان انکشافات کو صوبائی حکومت کے حوالے کیا گیا تھا ۔ قومی اداروں کی جانب سے تیار کردہ اس تفصیلی رپورٹ میں چشم کشاءانکشاف کیا گیا کہ گذشتہ ایک برس کے دوران صوبہ پنجاب میں انسداد دہشت گردی کے تین واقعات رونما ہوئے جبکہ خیبر پختونخواہ میں دہشت گردی کے 300 واقعات ہوئے ، رپورٹ میں ہوشرباءانکشاف بھی سامنے آیا کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کی حکومت اور عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دوران متعدد مرتبہ قومی اداروں کی جانب سے خبر دار کیا گیا تھا ، لیکن دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔
 باوثوق اورمعتبر ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ سوات میں پی ٹی آئی کی مرکزی اور صوبائی حکومت ٹی ٹی پی کو سوات میں لانے میں مددگار بنی تھی بعد اذاں یہی گروپس پی ٹی آئی کے عسکری ونگ کے طور پر کام کر رہا ہے جسے کبھی زمان پارک اور کبھی جلسے جلوسوں میں استعمال کیا جاتا ہے ، عمران خان ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کےلئے ہمدردیاں رکھتے ہیں ، اسی وجہ سے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے ڈیرہ کلاچی میں ٹی ٹی پی اور گنڈا پور گروپ بے خوف و خطر دندناتے پھرتے ہیںاور یہی گروپ تھانوں اور اسکولوں پر حملے کرنے میں ملوث بھی ہیں ۔ ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے پس منظر سے جڑے چشم کشاءحقائق پر وفاقی وزیر احسن اقبال کا معنی خیز بیان ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے ڈیرہ کلاچی کے حالات کی تصویر کشی کرتے ہیںکہ ” آج پی ٹی آئی کے مطالبات پورے کئے گئے تو کل دہشت گردوں کے مطالبات بھی ماننے پڑیں گے ، بانی پی ٹی آئی آرمی چیف کے خلاف بغاوت کا مرکزی کردار تھے “ ۔
حالیہ نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف بلوچستان میں جامع فوجی آپریشن کی منظوری دی گئی، لیکن خیبر پختونخواہ میں موجود دہشت گرد گروپوں کو نکیل ڈالنے کی حکمت عملی سامنے نہیں آئی۔ایپکس کمیٹی نے بلوچستان میں دہشت گرد اور علیحدگی پسند تنظیموں کیخلاف جامع فوجی آپریشن کی منظور ی دی جن میں بی ایل اے ،مجید بریگیڈ ، بی ایل ایف اور براس جیسی تنظیمات شامل ہیں ، کمیٹی کے اجلاس سے آرمی چیف نے اپنے خطاب میں دہشت گردوں اور انتشار پسندوں کو واضح پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ” آئین ہم پر پاکستان کے اندرونی اور بیرونی تحفظ کی ذمہ داری عائد کرتا ہے ، جو کوئی بھی پاکستان کے تحفظ میں رکاوٹ بنے گا اور ہمیں اپنا کام کرنے سے روکے گا اسے نتائج بھگتنا ہوں گے، آرمی چیف کا پاکستان اور آئین پاکستان کے تحفظ کا عزم اور دہشت گردوں کو نتائج بھگتنے کی تنبیہہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملکی مفادات اور تحفظ پر کسی قسم کی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا ۔
دہشت گرد ی کی کوئی بھی شکل ہو وہ قابل نفرت اور سزا کی مستحق ہے ، دہشت گرد خوف اور ہراس پیدا کر کے اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر نپی تلی حکمت عملی کو اپناتے ہیں جس سے بے قصور عام شہری بچے بوڑھے اور عورتوں کو بلا تمیز نشانہ بنایا جاتا ہے، جب کہ ان کا اصل ہدف کوئی اور ہوتا ہے ، مقصد وسیع پیمانے پر دہشت و تکلیف اور اپنا رعب جسمانی اور نفسیاتی طور پر پھیلانا ہوتا ہے ، دہشت گرد چاہتے ہیں کہ لوگ ان کی موجودگی کو محسوس کریں اور ان پر دہشت طاری رہے ، یہ لوگ قابل نفرت ہیں یہ معافی کے کسی طور مستحق نہیں ہیں ۔ 
 
 

ای پیپر دی نیشن