وطنِ عزیز کا یکے بعد دیگرے انتظام و انصرام چلانے والوں نے گھمبیر و گنجلک مسائل کے اتنے دیو قامت پہاڑ لا کھڑے کئے ہیں کہ اب ان کو سر کرنا تو کجا، دیکھ کر نہ رکنے والے ہَول اٹھتے ہیں۔ پی آئی اے، پاکستان ریلویز، پاکستان سٹیل ملز اور دیگر انتہائی خسارے میں رینگ رینگ اور رک رک کر چلنے والے ’سفید ہاتھیوں‘ کی بات کرنے کی کوئی تک نہیں بنتی کہ اِنہیں سیاست کو عبادت کا درجہ و مرتبہ دینے والوں نے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لئے زبوں حالی کی موجودہ منزلوں تک پہنچا رکھا ہے۔ اِس عمل میں ہنود و یہود و نصاریٰ کو کسی قسم کی کوئی سازش کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو سکی۔ کشمیر، بلوچستان اور دگرگوں معیشت کا ذکر کرنا بھی لا حاصل ہے کہ ان معاملات میں اندرونی سے زیادہ بیرونی عوامل کا دخول ہو چکا ہے۔ گڈ گورننس اور دہشت گردی (خارجیت) کے خاتمے کا تذکرہ چیھڑنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں کہ حکومت تو اپنی طرف سے ایڑی چوٹی کا زور لگا چکی ہے اور اپنی کارکردگی پر یکطرفہ طور پر مطمئن بھی ہے۔ اب اگر عوام طمانیت محسوس نہیں کر رہے تو حکومت کیا کرے؟
چلیں، سیاسی جلسوں،احتجاجی جلوسوں اور دھرنوں کو بھی نظر انداز کرتے ہیں کہ یہ سب چیزیں ہمیشہ حزبِ مخالف کی نظر میں حلال اور حکومت کی نگاہ میں حرام ہوتی ہیں۔ توانائی کے بحران اور بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافوں پر آہ و فغاں کرنے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوگا کیونکہ کالا باغ ڈیم کو قصہءپارینہ قرار دینے پر متفق ہونے والی تمام چھوٹی بڑی جماعتیں عوام کو کالا باغ کے متبادل کے طور پر سبز باغ دکھا رہی ہیں۔ البتہ ایسی بحرانی کیفیت میں عوام کو کالا باغ ڈیم کی یاد ضرور ستانے لگتی ہے۔ سستی روٹی کا فسانہ چھیڑنے سے حکومت تو بغلیں بجائے گی ہی کیونکہ کارکردگی میں اس کا سب سے بڑا پبلسٹی سٹنٹ یہی ٹھہرا مگر اِس سے آبادی کی اکثریت رکھنے والے بے اثر و بے ثمر کسانوں کی ناراضی اور آہوں کا احتمال یقیناً رہے گا۔ مہنگائی اور بیروزگاری پر بات بھی وقت کا زیاں ہوگی کہ کوشش کے باوجود یہ مسائل حکومت کے بس میں نہیں رہے۔ حکومت اِس کا سارا ملبہ سابقہ حکومت پر اور سابقہ حکومت اس سے پہلے والی حکومت پر ڈال کر بری الذمہ ہو چکی ہیں۔
سمگلنگ کو unofficially تجارت کا نام دے دیا گیا ہے۔ کرپشن، آئین و قانون شکنی کو ہر سطح پر ضروری برائی کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔ عوام نے بھی اِن عفریتوں کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبولیت بخشی ہوئی ہے۔ لاہور کے بعد ملتان کا نام دنیا بھر میں متعارف کرانے کا سہرا سموگ کے سر پر ہے۔ پہلے سے ملتان کی وجہءشہرت بننے والی شدید گرمی اور سوہن حلوہ پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ اِدھر نئے لاہور نے پرانے لاہور کو محاصرے میں لے لیا ہے۔ خارجہ محاذ پر پاکستان کی ناکامی پر زبان کھولنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو پذیرائی نہ ملنے پر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ بھارت آبادی، رقبے، وسائل اور بڑی اکانومی ہونے کی بنا پر دنیا کی نظر میں زیادہ معتبر اور قابلِ قبول ہونے کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ دنیا پاکستان کی نسبت بھارتی موقف کو اپنے مفادات کے لیے زیادہ ہم آہنگ اور سود مند سمجھتے ہوئے اسے درست اور حقیقت پر مبنی قرار دے دیتی ہے۔ اِس منطق میں وزن بھی ہے اور جدوجہد سے پہلو تہی کرنے کا بہترین جواز بھی۔ کہتے ہیں کہ”سننے والا سن کر، دیکھنے والا دیکھ کر اور سہنے والا سہہ کر جب خاموش ہو جائے تو سمجھ لینا کہ اب اس کا معاملہ رَب کی عدالت میں پہنچ گیا ہے“۔ اِس قول کی روشنی میں تو ہمارے زیادہ تر معاملات سیدھے رَب کی عدالت میں پہنچ چکے ہیں۔
عدالت کے ذکر سے فوری طور پر 26ویں آئینی ترمیم کے لئے شب و روز کی گئی انتھک حکومتی کوششیں اور کاوشیں ذہنوں میں بجلی کی طرح کوند جاتی ہیں۔ یہ ترمیم اتنی عجلت میں کی گئی کہ بعض حکومتی وزراءبھی ششدر ہوئے بنا نہ رہ سکے۔ ہماری کرکٹ ٹیم کے ساتھ ساتھ سیاسی ٹیم بھی قوم کو شاد و ناشاد کرنے کے لئے سرپرائز دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ حکومت کی طرف سے 26ویں ترمیم دراصل کسی عدم تحفط کے خدشے کے پیش نظر عمل میں لائی گئی تھی جس میں آئینی عدالت کے قیام، چیف جسٹس آف پاکستان کے تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی اور آرمی چیف کی مدت ملازمت بڑھانے پر فوکس کیا گیا تھا۔ اب جب کبھی بھی نئی حکومت نئے چہروں اور نئی سوچ کے ساتھ افق سیاست پر جلوہ گر ہوگی تو ہو سکتا ہے کہ وہ اِس ترمیم کا ازسرِنو جائزہ لے۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہماری سیاست کا میلان ملکی مسائل کی نسبت اِن دنوں چیفس کی تقرری سے متعلق زیادہ رہا ہے۔ جس وزیراعظم کو بھی موقع ملا، اس نے اپنی پسند کا آرمی چیف لگایا مگر بعد ازاں ان کی آپس میں ورکنگ ریلیشن حسبِ توقع برقرار نہ رہ سکی۔ یہی صورت حال عدلیہ میں چیف جسٹس، سجاد علی شاہ کے حوالے سے بھی رہی۔
مثالی صورتحال تو یہ ہونی چاہیے تھی کہ یہ ترمیم ملک کے وسیع تر مفاد میں ستائش کی تمنا اور صلے کی پرواہ کئے بغیر نظریہ ضرورت کو دفن کرنے کے لئے آتی۔ کاش یوں ہو سکتا کہ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری سی ایس ایس کے امتحان کی طرز پر ایف پی ایس سی کے ذریعے عمل میں لائی جاتی اور جوڈیشل اکیڈمی میں نئے تعینات ہونے والے ججز کی ایک طے شدہ وقت کے لئے تربیت کا اہتمام کیا جاتا۔ اِسی دوران کچھ عرصے کےلئے ان کی ورکنگ ججز کے ساتھ attachment کی جاتی اور اس کے بعد وہ انصاف کے ترازو کو ہاتھوں میں پکڑتے۔ میرٹ پر آنے کی وجہ سے وہ جانبداری کے الزام سے مبرا ہوتے۔ ان میں دباو کا مقابلہ کرنے کی ہمت بھی ہوتی اور سلیقہ بھی۔ زیرِ التوا مقدمات کی بھرمار کی وجہ سے ججز کی چھٹیوں کے معاملات پر بھی نظر ثانی کی جاتی اور سینئر ترین جسٹس کو چیف جسٹس کا قلمدان سونپا جاتا۔ ان کی تنخواہ، پنشن اور مراعات کے معاملات دیگر اعلیٰ سول سروس کے افسران سے ہم آہنگ ہوتے۔ مدت ملازمت میں کسی بھی طریقے سے توسیع دینے کے عنصر کو ختم کر دیا جاتا۔ آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے بھی یہ طریقہءکار اپنایا جاتا کہ سینئر ترین جنرل آرمی چیف بنتا اور اس کی مدت ملازمت میں توسیع کی گنجائش ختم کر دی جاتی۔ آرمی چیف کو ایکسٹینشن دینے اور جونیئر جنرلز کو آرمی چیف تعینات کرنے کے تجربے ناخوشگوار ہی رہے ہیں۔ اب اگر کبھی ایک دفعہ اس تجویز پر عمل پیرا ہو کر آزما لیا جائے تو یہ عمل یقیناً ریاست، سیاست، جمہوریت اور اداروں کے لئے بہتر ثابت ہوگا۔ آزمائش شرط ہے!