پاکستان تحریک انصاف احتجاج کر رہی ہے ویسے پی ٹی آئی ہر وقت احتجاج کے موڈ میں ہی رہتی ہے۔ کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور صوبائی حکومت کے خلاف ہی دھرنے پر نہ بیٹھ جائیں۔ پی ٹی آئی کچھ اور کرے نہ کرے لیکن احتجاج ضرور کرتے رہتے ہیں۔ ان دنوں تو چونکہ علی امین گنڈا پور کی جماعت کے بانی چیئرمین جیل میں ہیں، وہ قید ہیں اس لیے باہر والوں کے پاس احتجاج کا عذر موجود ہے لیکن اگر کہیں معاملات قانونی سطح پر ہیں تو عدالتی راستہ اختیار کرنا چاہیے، قانونی جنگ قانون کے میدان میں ہونی چاہیے اسے سیاسی جنگ بنانے سے گریز کرنا چاہیے لیکن ہمارے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ پی ٹی آئی قیادت وقفے وقفے سے احتجاج کا اعلان کرتی ہے، صوبائی حکومت سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کرتی ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ اب ایک مرتبہ پھر ملک بھر میں احتجاج تماشا لگا ہوا ہے ایک طرف پاکستان چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کے لیے تیاریوں میں مصروف ہے تو دوسری طرف یہاں سڑکوں سے کل جو مناظر دنیا کو جائیں گے کیا ایسے واقعات سے غیر ملکیوں کے ذہنوں میں خدشات پیدا نہیں ہوں گے۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے لیکن ہم بین الاقوامی کرکٹ کی اس بڑی مشق کو کسی خاطر میں ہی نہیں لا رہے اس سے زیادہ بے رحمی کیا ہو گی۔ کوئی بھی جماعت ایسے وقت میں یہ ماحول پیدا کرے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی۔ اگر پاکستان میں انتیس سال بعد انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کا بڑا ٹورنامنٹ ہو رہا ہے تو پھر کیا اس کو یہ اہمیت نہیں ملنی چاہیے کہ اس کے آس پاس ہم اپنے سیاسی حالات کو معمول پر رکھنے کے لیے احتجاجی سرگرمیوں کو محدود رکھنے پر غور و فکر کریں۔ اس مرتبہ تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی پاکستان تحریک انصاف کے 24 نومبر کو ہونے والے احتجاج بارے انتظامیہ کو احتجاج کی اجازت نہ دینے کا حکم دے رکھا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریری حکم نامے میں کہا ہے کہ چوبیس نومبر کو بیلاروس کے صدر نے آنا ہے، حکومت کا احتجاج سے متعلق بنایا گیا حالیہ ایکٹ روز روشن کی طرح عیاں ہے، حالیہ ایکٹ کی خلاف ورزی میں اسلام آباد میں کسی احتجاج یا دھرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ امن قائم رکھنے کیلئے انتظامیہ قانون کے مطابق تمام اقدامات کرے۔انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ قانون کی خلاف ورزی نہ ہونے دی جائے، یقینی بنایا جائے کہ شہریوں کے کاروبار زندگی میں کوئی رخنہ نہ پڑے۔ پبلک آرڈر 2024 دھرنے، احتجاج، ریلی وغیرہ کی اجازت کیلئے مروجہ قانون ہے، اسلام آباد انتظامیہ مروجہ قانون کے خلاف دھرنا، ریلی یا احتجاج کی اجازت نہ دے۔
اس عدالتی حکم پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کام کر رہی ہے جب کہ سینیٹر فیصل واڈا نے تو یہ بھی کہہ دیا ہے کہ عدالتی احکامات نہ ماننے والے اراکین اسمبلی کو بھلے وہ قومی اسمبلی کے رکن ہیں یا پھر صوبائی اسمبلی کے رکن ہیں اپنی سیٹوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ عدالتی احکامات پر عملدرآمد کے حوالے سے تو کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے۔ انتخابات کے حوالے سے پی ٹی آئی کو جب ریلیف ملا تھا تو اس وقت بھی یہی لکھا تھا کہ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد ہونا چاہیے آج اگر عدالت نے حکم دے رکھا ہے تو پاکستان تحریک انصاف کو عدالتی احکامات پر عمل کرنا چاہیے۔ بدقسمتی ہے کہ ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ سرکاری وسائل کو ذاتی وسائل کی طرح استعمال کرتے ہیں اور یہ بہت خطرناک رجحان ہے۔ ایسے کل کلاں دوسروں صوبوں کی حکومتیں اگر وفاق سے پالیسی معاملات میں اختلاف رکھیں تو کیا وہ بھی سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے وفاق پر چڑھائی کر دیں۔ یہ خطرناک رجحان ہے اس کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہیے، ایسی کوئی مثال قائم نہیں ہونی چاہیے جس کا سہارا مستقبل میں کوئی اور بھی لیتے ہوئے وفاق پر چڑھ دوڑے۔
پی ٹی آئی کو مختلف مسائل کا سامنا ہے لیکن ان کے پاس مسائل حل کرنے کی کوئی تدابیر نہیں ہے، وہ شاید اس پوزیشن میں بھی نہیں کہ کسی سے بات چیت کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ جتنے سپیکرز پی ٹی آئی کے ہیں اور جس مختلف مختلف انداز میں سب باتیں کرتے رہتے ہیں اس سے ابہام ابہام پیدا ہوتا ہے، واضح طور پر یہ احساس ہوتا ہے مختلف مقامات پر مختلف معاملات پر بات کرنے والوں کی اپنی سوچ ہے۔ کوئی پارٹی پالیسی ایسی نظر نہیں آتی جس کو پنجاب، اسلام آباد، کراچی اور کوئٹہ میں ایک ہی انداز سے بیان کیا جائے۔ بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ کے ویڈیو بیانات سے معاملات اور بگڑتے دکھائی دئیے کیونکہ سیاسی طور پر عمران خان کی بہنیں کوئی اور سوچ رکھتی ہیں اور دونوں میں رابطے کا فقدان بھی واضح طور پر نظر آتا ہے کیونکہ جب علیمہ خان سے بشری بی بی کے حوالے سے احتجاج میں شرکت کا سوال ہوا تو علیمہ خان کا جواب تھا کہ ہم تو شرکت کر رہے ہیں ان کا وہی بتا سکتی ہیں۔ سو یہ حالات بتاتے ہیں کہ مشکل وقت میں اہم افراد کے درمیان جس قریبی رابطے کی ضرورت ہوتی ہے یہاں اس کا فقدان ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی سیاسی ٹیم مشکلات کم کرنے کے بجائے اضافے کا باعث ہے، ان کے وکلا کی ٹیم بھی ایسے افراد پر مشتمل ہے جو بہتر انداز میں قانونی طور پر بھی بانی پی ٹی آئی کا دفاع نہیں کر سکی۔ نہ سیاسی محاذ توقعات اور ضرورت کے مطابق پرفارم کر رہا ہے نہ قانونی ٹیم بہتر حکمت عملی کے تحت کام کرے تو ریلیف کیسے مل سکتا ہے۔ بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ دو ہزار پچیس بھی ان کے لیے دو ہزار چوبیس سے مختلف نہیں ہو گا۔ باقی پاکستان میں حالات بدلتے دیر نہیں لگتی لیکن اس وقت جو حالات ہیں انہیں دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو ریلیف ملنا مشکل ہے۔
آخر تنویر نقوی کا کلام
جانِ بَہاراں
رَشکِ چَمَن
غْنچَہ دَہن، سِیمِیں بَدَن
اَے جانِ مَن!
جانِ بَہاراں
جَنَّت کی حْوریں، تْجھ پہ فِدا
رَفتار جیسے، مَوجِ صَبا
رَنگِیں اَدا تَوبہ شِکن
اے جانِ مَن!
جانِ بَہاراں
شمعِ فِروزاں، آنکھیں تِری
ہر اِک نَظَر میں، جادْوگَری
زْلفیں تِری مْشکِ خْتَن
اے جانِ مَن!
جانِ بَہاراں
اے ناز پَروَر، ناز آفرِیں
لاکھوں حَسِیں ہیں، تْجھ سا نہیں
خَندَہ جَبِیں، شِیریں سْخَن
اے جانِ مَن
جانِ بَہاراں۔۔۔!