ہلیری نے تو سارا بھانڈہ ہی پھوڑ دیا ہے۔ یہ طعنے دیتے نہیں تھک رہے تھے کہ کیری لوگر بل کو پڑھے اور اس کا مفہوم سمجھے بغیر ہی اسے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ چند ’’پڑھے لکھے‘‘ حکمرانوں کے سامنے پوری قوم جاہل، ان پڑھ ہے۔ بس لاٹھی پر لاٹھی مارے جا رہی ہے اور حکومت پر محض تنقید کا شوق پورا کر رہی ہے۔ پہلے وزیراعظم، پھر پیپلز پارٹی کے بزرجمہروں اور پھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کیری لوگر بل کی رطب اللسانی میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دئیے۔ کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی شائد اس بل کے مندرجات کو پڑھے بغیر ہی باضابطہ طور پر اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہو گا مگر ان تحفظات کی بنیاد پر پوری قوم بیک آواز ہو گئی کہ اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے اور اس میں موجود قومی آزادی و خود مختاری کے منافی شرائط کے عوض امریکی امداد ہرگز حاصل نہ کی جائے۔ پھر گتھیاں سلجھنے لگیں اور گرہیں کھلنے لگیں تو یہ قصے زبانِ زد عام ہو گئے کہ کیری لوگر بل میں ملک کی مسلح افواج کے معاملات کو سول کنٹرول میں دینے کی شرط ہمارے حسین دانشور سفیر پاکستان حسین حقانی نے اپنی لابنگ کے زور پر شامل کرائی ہے اس حوالے سے ان کی کتاب ’’پاکستان بیٹوین موسک اینڈ ملٹری‘‘ کے تذکرے بھی زبانِ زد عام ہوئے جن کی کتاب کے تین صفحات بطور حوالہ پیش ہونے لگے کہ کیری لوگر بل میں موجود متذکرہ شرط عین وہی ہے جو حسین حقانی نے اپنی کتاب کے ان صفحات میں تجویز کی ہوئی ہے۔
حکومت اور حکمران پارٹی کے لیڈران تو اس حوالے سے کیری لوگر بل پر ہونے والی تنقید کو ’’بدخواہوں‘‘ کا خبث باطن ہی قرار دے رہے تھے مگر امریکی سیاستدانوں نے شائد ابھی ہمارے سیاستدانوں جیسا منافقت کا چلن اختیار نہیں کیا اس لئے ہلیری کلنٹن نے تو بھانڈہ ہی پھوڑ دیا ہے جو اپنے شوہر سابق امریکی صدربل کلنٹن کے معاشقے کے حوالے سے بھانڈہ پھوڑنے کی خاصی تربیت حاصل کر چکی ہیں اس لئے انہوں نے کیری لوگر بل پر ہونے والی سخت تنقید سے عاجز آ کر بغیر کسی لگی لپٹی کے یہ کھری کھری سنا دی ہیں کہ کیری لوگر بل تو ہم نے باہم مل کر تیار کیا ہے پھر اس پر پاکستان میں منفی ردعمل کیوں؟ ان کے بقول امریکہ نے اب کیری لوگر بل پر پاکستان کے میڈیا پر ہونے والی تنقید کا جارحانہ جواب دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ جارحانہ جواب بھلا کیا ہو گا، بس آئینہ دکھایا جائے گا کہ آپ اس بل کی فلاں شق پر معترض ہیں تو ہم سے کیا پوچھتے ہو، اپنے حکمرانوں کی جانب انگلی اٹھائو جنہوں نے یہ شق اس بل میں شامل کرائی ہے۔ ہمیں بھلا اس سے کیا سروکار ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں جرنیلی حکمرانی ہے یا سلطانی جمہور چل رہی ہے۔ ہمیں تو آپ کی جرنیلی حکمرانی زیادہ سوٹ کرتی ہے جس میں ہم جو چاہیں اور جب چاہیں آپ کے حکمرانوں سے منوا لیتے ہیں۔ بھئی ہمیں اس سے کیا غرض کہ آپ کے طالع آزما جرنیل جمہوری حکمرانی کو چلنے نہیں دیتے۔ وہ ہمارے مقاصد پورے کرتے ہیں تو بے شک آپ کی جمہوری حکومتوں کو چلتا کیا کریں۔ یہ آپ کا دردسر ہے کہ آپ کو اپنے لئے کون سی حکمرانی سوٹ کرتی ہے۔ ہلیری کلنٹن نے کیا غضب کر دیا ہے کہ ہماری قوم کو ہمارے ہی حکمرانوں کا چہرہ دکھا دیا ہے ؎
تو نے یہ کیا غضب کیا، مجھ کو ہی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں
تو جناب اب ہلیری کلنٹن کے بقول امریکہ کیری لوگر بل میں پاکستان کے حکمرانوں کی جانب سے شامل کرائے گئے گناہ کی بنیاد پر خود پر ہونے والی تنقید کا جارحانہ جواب دینے کا فیصلہ کر چکا ہے جس کی پہلی قسط ہلیری کلنٹن نے ہمیں ہمارے معصوم حکمرانوں کا چہرہ دکھا کر پیش کر دی ہے مگر فوج کے معاملات کو سول کنٹرول میں دینے کی شرط تو اپنی جگہ، اس میں پاکستان سے خود کو دہشت گرد ریاست تسلیم کرانے کا گناہ آپ سے کس نے سرزد کرایا ہے اور کیا پاکستانی قوم آپ نے اتنی ہی گئی گزری سمجھ لی ہے کہ آپ اس کی آزادی اور خودمختاری کو سلب کریں اور وہ آپ کے اس ’’حسنِ تدبیر‘‘ کو بھی بخوشی و رضا قبول کر لے اور یہ کیا غضب ہے کہ اب امریکی سینٹ نے اگلے سال کے لئے اپنا دفاعی بجٹ منظور کرتے ہوئے پاکستان کی دفاعی امداد کے لئے مزید کڑی شرائط عائد کر دی ہیں شائد ان شرائط کے بارے میں بھی حسین حقانی کی کتاب کے کسی صفحے کا حوالہ منظر عام پر آ جائے اس لئے پاکستان کے میڈیا کو امریکہ کی جانب سے جارحانہ جواب پر فکرمند نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ جارحیت ہمارے ’’بھانڈے‘‘ پھوڑنے والی ہی ہو گی اگر ان ’’بھانڈوں‘‘ کو ملک و قوم کے مفادات ہی کی پاسداری نہیں اور وہ آخری موقع سمجھ کر ملک کی سلامتی کے عوض سب کچھ سمیٹنے کی فکر میں غلطاں ہیں تو لگی لپٹی رکھے بغیر امریکی حکمرانوں کی جانب سے دکھائے جانے والے ان کے چہروں کو چھپانے کی ہمیں بھی کوئی مجبوری لاحق نہیں ہونی چاہئے۔ یہ چہرے تو اب خود ہی عیاں ہو رہے ہیں اس لئے ہلیری کلنٹن کی جانب سے ڈھائے جانے والے غضب پر ہمیں بھی کوئی فکرمندی نہیں ہے کیونکہ ان چہروں کے بے نقاب ہونے سے ہمارے بارے میں امریکی عزائم بھی تو بے نقاب ہو رہے ہیں ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ کیری لوگر بل کی شرائط پر ہونے والی تنقید کو برداشت نہ کرنے کا ارادہ ظاہر کرکے پاکستان کی دفاعی امداد کے حوالے سے کیری لوگر بل میں موجود شرائط سے بھی زیادہ سخت شرائط ہم پر عائد کر دی جائیں۔ یہ سب ’’نٹ کھٹ‘‘ کی گِٹ مٹ ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ ہلیری کلنٹن کے ایک غضب ڈھانے سے سارے غضب بے نقاب ہونے لگے ہیں۔
حکومت اور حکمران پارٹی کے لیڈران تو اس حوالے سے کیری لوگر بل پر ہونے والی تنقید کو ’’بدخواہوں‘‘ کا خبث باطن ہی قرار دے رہے تھے مگر امریکی سیاستدانوں نے شائد ابھی ہمارے سیاستدانوں جیسا منافقت کا چلن اختیار نہیں کیا اس لئے ہلیری کلنٹن نے تو بھانڈہ ہی پھوڑ دیا ہے جو اپنے شوہر سابق امریکی صدربل کلنٹن کے معاشقے کے حوالے سے بھانڈہ پھوڑنے کی خاصی تربیت حاصل کر چکی ہیں اس لئے انہوں نے کیری لوگر بل پر ہونے والی سخت تنقید سے عاجز آ کر بغیر کسی لگی لپٹی کے یہ کھری کھری سنا دی ہیں کہ کیری لوگر بل تو ہم نے باہم مل کر تیار کیا ہے پھر اس پر پاکستان میں منفی ردعمل کیوں؟ ان کے بقول امریکہ نے اب کیری لوگر بل پر پاکستان کے میڈیا پر ہونے والی تنقید کا جارحانہ جواب دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ جارحانہ جواب بھلا کیا ہو گا، بس آئینہ دکھایا جائے گا کہ آپ اس بل کی فلاں شق پر معترض ہیں تو ہم سے کیا پوچھتے ہو، اپنے حکمرانوں کی جانب انگلی اٹھائو جنہوں نے یہ شق اس بل میں شامل کرائی ہے۔ ہمیں بھلا اس سے کیا سروکار ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں جرنیلی حکمرانی ہے یا سلطانی جمہور چل رہی ہے۔ ہمیں تو آپ کی جرنیلی حکمرانی زیادہ سوٹ کرتی ہے جس میں ہم جو چاہیں اور جب چاہیں آپ کے حکمرانوں سے منوا لیتے ہیں۔ بھئی ہمیں اس سے کیا غرض کہ آپ کے طالع آزما جرنیل جمہوری حکمرانی کو چلنے نہیں دیتے۔ وہ ہمارے مقاصد پورے کرتے ہیں تو بے شک آپ کی جمہوری حکومتوں کو چلتا کیا کریں۔ یہ آپ کا دردسر ہے کہ آپ کو اپنے لئے کون سی حکمرانی سوٹ کرتی ہے۔ ہلیری کلنٹن نے کیا غضب کر دیا ہے کہ ہماری قوم کو ہمارے ہی حکمرانوں کا چہرہ دکھا دیا ہے ؎
تو نے یہ کیا غضب کیا، مجھ کو ہی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں
تو جناب اب ہلیری کلنٹن کے بقول امریکہ کیری لوگر بل میں پاکستان کے حکمرانوں کی جانب سے شامل کرائے گئے گناہ کی بنیاد پر خود پر ہونے والی تنقید کا جارحانہ جواب دینے کا فیصلہ کر چکا ہے جس کی پہلی قسط ہلیری کلنٹن نے ہمیں ہمارے معصوم حکمرانوں کا چہرہ دکھا کر پیش کر دی ہے مگر فوج کے معاملات کو سول کنٹرول میں دینے کی شرط تو اپنی جگہ، اس میں پاکستان سے خود کو دہشت گرد ریاست تسلیم کرانے کا گناہ آپ سے کس نے سرزد کرایا ہے اور کیا پاکستانی قوم آپ نے اتنی ہی گئی گزری سمجھ لی ہے کہ آپ اس کی آزادی اور خودمختاری کو سلب کریں اور وہ آپ کے اس ’’حسنِ تدبیر‘‘ کو بھی بخوشی و رضا قبول کر لے اور یہ کیا غضب ہے کہ اب امریکی سینٹ نے اگلے سال کے لئے اپنا دفاعی بجٹ منظور کرتے ہوئے پاکستان کی دفاعی امداد کے لئے مزید کڑی شرائط عائد کر دی ہیں شائد ان شرائط کے بارے میں بھی حسین حقانی کی کتاب کے کسی صفحے کا حوالہ منظر عام پر آ جائے اس لئے پاکستان کے میڈیا کو امریکہ کی جانب سے جارحانہ جواب پر فکرمند نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ جارحیت ہمارے ’’بھانڈے‘‘ پھوڑنے والی ہی ہو گی اگر ان ’’بھانڈوں‘‘ کو ملک و قوم کے مفادات ہی کی پاسداری نہیں اور وہ آخری موقع سمجھ کر ملک کی سلامتی کے عوض سب کچھ سمیٹنے کی فکر میں غلطاں ہیں تو لگی لپٹی رکھے بغیر امریکی حکمرانوں کی جانب سے دکھائے جانے والے ان کے چہروں کو چھپانے کی ہمیں بھی کوئی مجبوری لاحق نہیں ہونی چاہئے۔ یہ چہرے تو اب خود ہی عیاں ہو رہے ہیں اس لئے ہلیری کلنٹن کی جانب سے ڈھائے جانے والے غضب پر ہمیں بھی کوئی فکرمندی نہیں ہے کیونکہ ان چہروں کے بے نقاب ہونے سے ہمارے بارے میں امریکی عزائم بھی تو بے نقاب ہو رہے ہیں ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ کیری لوگر بل کی شرائط پر ہونے والی تنقید کو برداشت نہ کرنے کا ارادہ ظاہر کرکے پاکستان کی دفاعی امداد کے حوالے سے کیری لوگر بل میں موجود شرائط سے بھی زیادہ سخت شرائط ہم پر عائد کر دی جائیں۔ یہ سب ’’نٹ کھٹ‘‘ کی گِٹ مٹ ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ ہلیری کلنٹن کے ایک غضب ڈھانے سے سارے غضب بے نقاب ہونے لگے ہیں۔