پہلی جنگ عظیم کے بعد عالمی طاقتوں میں تصادم روکنے کیلئے انیس سوبیس میں لیگ آف نیشنزنامی تنظیم کا قیام عمل میں آیا،بد قسمتی سے یہ تنظیم بھی دوسری جنگ عظیم کو نہ روک سکی اورجاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرادیا گیا ، جس کے بعد ایسے سانحات کو روکنے کیلئے مؤثراور طاقتور تنظیم کے قیام کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا گیا اورانیس سو پینتالیس میں اقوام متحدہ کا ادارہ وجود میں آگیا، اقوام متحدہ کی اصطلاح پہلی بارامریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے دوسری جنگ عظیم کے دوران اتحادی ممالک کیلئے استعمال کی۔ یکم جنوری انیس سو بیالیس کویہ اصطلاح باقاعدہ طورپراُس وقت استعمال کی گئی جب چھبیس ممالک نے اٹلانٹک چارٹر پردستخط کیے۔ 25اپریل1945کو سان فرانسسکومیں یونائیٹڈ نیشنز کانفرنس آن انٹرنیشنل آرگنائزیشن شروع ہوئی،جس میں پچاس ممالک اور کئی غیرسرکاری اداروں نے شرکت کی اوراقوام متحدہ کا چارٹرتشکیل دیا۔ چوبیس اکتوبر انیس سو پنتالیس کو پانچ مستقل ممبران امریکہ ، چین، سویت یونین، برطانیہ اورفرانس نے دیگر46ممالک کے ساتھ اِس چارٹر پر دستخط کیے، جس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ کا باضابطہ جنم ہوا۔ اقوام متحدہ کا وجود شروع ہی سے تنقیداورتنازعوں کی زد میں رہا اورعالمی طاقتوں کے مفادات کا تحفظ اورمسائل کے حل میں ناکامی کے الزامات بھی لگتے رہے۔ فاک لینڈاورجارجیامیں اقوام متحدہ کی بےبسی سب کے سامنے ہے مگر عالم اسلام سب سے زیادہ اس عالمی ادارے سے ناخوش ہے۔ کشمیر، فلسطین، بوسنیا، تھائی لینڈ میں مسلمانوں کی نسل کشی جبکہ دوسری جانب مشرقی تیمورکی راتوں رات آزادی۔ پاکستان30ستمبر1947کو اقوام متحدہ کا رکن بنا تو اگلے ہی مہینے کشمیر پر بھارت سے جنگ چھڑگئی۔ تنازع کشمیر کے حل کیلئے بھارت نے جنوری 1948میں اقوام متحدہ کی مدد طلب کی، جس پر ادارے کی سلامتی کونسل نے21اپریل1948کورائے شماری کی تاریخی قرارداد منظورکی جسے بھارت نے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا اور اقوام متحدہ کچھ بھی کرنے میں ناکام رہی.