جنگ تو ایک محاد پر بھی لڑنا مشکل ہوتی ہے‘ پورے سازوسامان کے ساتھ بھی دشمن کو سبق سکھانا جان جوکھوں کا کام ہوتا ہے۔ بہت سوچ سمجھ کر رسد و کمک کا جائزہ لے کر بھی سو بار سوچا جاتا ہے کہ دوسرا محاذ کھولا جائے یا نہیں۔ دنیا کی طاقتور ترین افواج بھی مرحلہ وار دشمن پر وار کرتی ہیں۔ پیش بندی کرنے سے پہلے نقشوں اور خاکوں کی مدد سے‘ اپنے جاسوس نیٹ ورک کی معلومات کی روشنی میں‘ انتہائی محتاط منصوبہ بندی کرتی ہیں اور پھر بھی مناسب ماحول‘ مددگار موسم اور اپنے سپاہیوں کے مورال کا جائزہ لے کر ہی انتہائی قدم اٹھاتی ہیں۔ اپنے شہریوں کی سپورٹ‘ عالمی رائے عامہ اور سیاسی صورتحال کا تجزیہ کر کے ہی حکمت عملی تیار کی جاتی ہے اور اگر فریق مخالف کی طرف سے جنگ اچانک مسلط کر دی جائے تو پھر افراتفری اور انارکی پھیل جاتی ہے۔نظریاتی سرحدوں کا معاملہ بھی حربی محاذوں سے مختلف نہیں ہوتا۔ حفاظتی حصار کی تعمیر بڑے دل گردے کا کام ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان جو اسلام‘ جمہوریت اور پاکیزہ سرزمین کا مظہر ہے‘ کئی بار ایسے مراحل سے گزر چکا ہے۔ اندرونی و بیرونی سازشیں اور معرکہ آرائیاں ہوتی رہی ہیں۔ ریاست کے دین‘ نظام سیاست اور وجود کے خلاف ریشہ دوانیوں اور ایڈونچرازم کی ایک سیاہ تاریخ ہے۔ ان تمام تر شب خونوں کے آگے بند باندھنے کا حوصلہ لئے ایک ایسی شخصیت سرزمین پاک پر موجود رہی ہے جو بقول اقبال
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریا¶ں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
جی ہاں .... چومکھی لڑائی میں سرخرو ہونے والے‘ جناب ڈاکٹر مجید نظامی.... جن کا کہنا ہے کہ ”اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اپنے گھوڑے تیار رکھنے کا حکم صادر فرماتے ہیں اور بفضل تعالیٰ ہمارے گھوڑے چار منٹ میں بھارتی گدھوں کو نیست و نابود کر سکتے ہیں۔“
3 اپریل 1928ءبروز منگل سانگلہ ہل (ضلع شیخوپورہ) میں وہ بطل حریت پیدا ہوتا ہے جسے ملت اسلامیہ کی نظریاتی حفاظت پر مامور کرنا مقصود تھا.... جسے جابر سلطان کے سامنے کلمہ¿ حق کہنے کا فریضہ ادا کرنا تھا.... جسے وقت کے فرعونوں کو عصا موسوی دکھانا تھا.... جسے ہر دور کے یزید کو حسینیت کے کردار سے روشناس کروانا تھا.... جسے اپنے ہی جیسے شاہینوں کی ایک مستقل نسل کو پروان چڑھانا تھا.... جس کو لیاقت علی خان نے تلوار تھماتے ہوئے مجاہد تحریک پاکستان کا سرٹیفکیٹ بھی دیا تھا۔ جسے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے آمریت کے خلاف جمہوریت کا قلعہ قرار دیا.... جو چین کے ما¶زے تنگ اور چواین لائی کے دور میں پاک چین دوستی کا محور تھا.... جسے جہاد افغانستان کا پشتی بان کہا گیا.... جسے بوسنیا کے مسلمانوں نے اپنا غم گسار اور مددگار کہا.... جسے عراق و فلسطین کے مظلومین نے امت کا نجات دہندہ کہا.... جسے محصورین پاکستان در بنگلہ دیش نے اپنا سرپرست کہا.... جسے کشمیر کی وادیوں میں بسنے والے لہو نے آزادی کا سپہ سالار کہا.... جسے زلزلہ زدگان نے ”انصار اللہ“ کہا.... جسے سیلاب زدگان نے امید کا سورج کہا.... جسے اہل صحافت نے امیر صحافت کہا.... جسے امت مسلمہ نے عصر حاضر کا امام کہا۔ وہ ہمیشہ اسلام اور امت مسلمہ کیلئے شمشیرِ برہنہ رہے.... جمہوریت پر شب خون مارنے والوں کیلئے وہ حسینی للکار رہے اور دشمنان پاکستان کیلئے وہ تنِ تنہا پوری افواج پاکستان رہے۔ستارہ¿ پاکستان ملنے سے پہلے ہی وہ پاکستان کے قومی پرچم پر نظر آنے والے ستارے کے پرتو تھے۔ ستارہ¿ امتیاز اور نشان امتیاز سے کہیں پہلے وہ پاکستان کا امتیاز بن چکے تھے۔ وہ ظالموں کیلئے.... غاصبوں کیلئے.... آمروں کیلئے ایک ایسی فصیل بن چکے ہیں جس کو سر کرنا ناممکن ہے۔ ان کا عزم ہمیشہ ہمالہ سے بھی بلند رہا‘ نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ‘ اور نوائے وقت ان کے وہ ہتھیار ہے جو وطن عزیز کے نظریاتی دشمنوں کو پچھاڑتے رہے۔ عبارت سے ”خوشامدانہ محبت“ کے شکار ”کمیّوں“ کو للکارتے رہے۔ انہوں نے منافقت کو ہمیشہ دندانِ شکن ج واب دیا۔ وہ ہمیشہ چینی کہاوت ”پہلے اپنے دشمن کو پہچانو“ کے مصداق اپنے دوستوں اور دشمنوں کے بارے میں بہت کلیئر رہے۔ بھارتی درندگی کے خلاف ان کو م¶قف بڑا واضح رہا۔ کسی خوف‘ لالچ‘ طمع یا حرص نے ان کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آنے دی۔ انہوں نے اپنے مشن کیلئے ہمیشہ بہترین ساتھیوں کو چنا۔ نوائے وقت کو اخبار سے زیادہ ایک تحریک کی شکل دی۔ وہ تحریک جو حصول پاکستان سے شروع ہو کر استحکام پاکستان اور پھر تکمیل پاکستان کی تحریک بنی۔
ایٹمی پاکستان ان کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ مظلوم کشمیریوں کو حق خودارادیت دلوانے کیلئے جناب مجید نظامی کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ امریکہ‘ اسرائیل اور بھارت کے ”ٹرائیکا“ کو وہ ملت اسلامیہ کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں اور حقیقت تو یہ ہے کہ ملت کے دکھوں کا مداوا بھی اسی میں ہے کہ اپنے دشمن کو پہچان کر گھوڑے تیار رکھے جائیں۔ واضح اہداف کا انتخاب کیا جائے اور کسی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا ہونے کی بجائے اللہ رب العزت پہ بھروسہ کیا جائے۔ چومکھی لڑائی کیلئے نوائے وقت کا یہ مجاہد درحقیقت امت مسلمہ کی پوری فوج کے برابر ہے جو سازوسامان کو نہیں‘ رسد و کمک کو نہیں‘ جنگی نقشوں اور جاسوسوں کی معلومات کو نہیں دیکھتا.... جو دشمن کی حربی قوتوں سے خائف نہیں.... جو دلیل روشن کی مانند صرف اور صرف اپنے رب پر بھروسہ کرتا ہے.... اسی رب پر جس نے کہا‘ ”نہ دل گرفتہ ہوں‘ نہ غمزدہ اور مایوس ہوں‘ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو“۔ جناب مجید نظامی کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی نے عطا کی ہے‘ حقیقت تو یہ ہے کہ جناب نظامی صاحب اپنی ذات میں یونیورسٹی ہیں۔ ان کو ڈگری عطا کرنے سے خود پنجاب یونیورسٹی معتبر ہوئی ہے۔ ڈاکٹر مجید نظامی تو کب سے ملت کے دکھوں کا مداوا کرتے چلے آ رہے ہیں.... کب سے کشمیریوں‘ فلسطینیوں‘ افغانیوں‘ عراقیوں‘ بہاریوں اور وطن عزیز کے مظلوموں کے زخموں پر مرہم رکھتے آ ر ہے ہیں.... ان کے مصائب و آلام کا علاج کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ان کی ڈگری اعزازی سہی لیکن وہ ڈاکٹر اصلی ہیں۔ ملت کی نشاة ثانیہ کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی‘ جناب ڈاکٹر مجید نظامی جیسے آسمانِ صحافت کے درخشندہ ستارے کو ”مسیحِ ملت“ پکارا جائے گا۔