منظور وٹو کی استقبالیہ ریلی میں کارکنوں کی مایوس کن تعداد میں شرکت پر مرکزی قیادت نے نوٹس لے لیا کیونکہ وٹو صاحب کو صرف اپنے حلقے سے آئے ہوئے کارکنوں ہی سے خطاب کرنا پڑا۔
یہ تو وہی بات ہوئی کہ....ع
لینے گیا تھا سُرمے دانی لے آیا ظالم بنارس کا زردہ
مجوزہ فاتح لاہور کا پہلا حملہ ہی ناکام رہا‘ گویا زرداری کے ہاتھ خالی جام رہا‘ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت مرکز تک ہی رہے تحتِ لاہور کے تخت پر قدم نہ ہی رکھے کہ مبادا وہاں تارا مسیح سے ملاقات نہ ہو جائے۔ میاں منظور وٹو‘ زرداری کی دسیسہ کاری ویژن کے مطابق‘ بلا کے حیلہ ساز ہیں‘ لیکن نہ جانے کیا ہوا کہ وہ صاف میدان بھی نہ مار سکے کیونکہ میاں شہباز شریف تو پاکستان کے تاریخی عظیم پرچم بنانے میں جتے ہوئے تھے۔ زرداری صاحب کو پرائے کاندھنے کرائے پر لے کر استعمال کرنے کے بجائے اپنی سندھی سلیمانی ٹوپی ہی کے جوہر پنجاب میں دکھانے چاہئیں تاکہ انکی استخواں فروشی سے مزید بھٹو کی روح کو تکلیف نہ پہنچے۔ پانچ سالہ سنہری دور حکومت کی چھاپ اتنی گہری ہے کہ خود پیپلز پارٹی کے دامن پر لگی نظر آتی ہے۔ اب شاید پیپلی جیالوں کے تلوں میں اور لیڈروں کے دلوں میں تیل نہیں رہا‘ البتہ انکی تجوریاں لبریز ہو گئیں اس لئے صبر شکر کریں اور اپوزیشن کی بینچوں پر بیٹھنے کی مشق شروع کر دیں۔ زرداری صاحب نے منظور وٹو کا انتخاب کرکے کمال کر دکھایا ہے کیونکہ 1994ءمیں وہ بغیر کسی پارٹی کے وزیراعلیٰ بن گئے تھے اور اب انہوں نے سامعین کے بغیر جلسہ کر دکھایا اس لئے صدر منظور وٹو کو شاباش دیں اور اپنی سیاسی ذہانت پر ناز کریں۔
٭....٭....٭....٭
بابر اعوان فرماتے ہیں‘ میرے اور زرداری کے درمیان تنازع کا باعث شخص اقتدار سے روتا ہوا نکلا۔
اگر بابر اعوان کبھی قشقہ کھینچ کر مراقبہ کریں تو ان پر کھل جائیگا کہ اگر وہ یہ نہ کہتے کہ ”نوٹس ملیا تے ککھ نہ ہلیا“ تو وہ ہرگز اپنے مقام سے نہ ہلتے‘ باقی جس شخص کو انہوں نے اپنے اور زرداری کے درمیان تنازع کا باعث ٹھہرایا ہے تو یہ زرداری کی قربانی خراب کرنے کے مترادف ہے کیونکہ بکرا متنازع ہو جائے تو قربانی قبول نہیں ہوتی۔ چاہ یوسف سے اب بھی صدا آرہی ہے....ع
مفت ہوئے بدنام کسی سے ہائے دل کو لگا کے
بابر اعوان صاحب اپنے عیب دوسروں میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے خود کو گم کر بیٹھے ہیں۔ وہ شکر کریں کہ بوچڑ خانے سے باہر ہیں‘ اب ان کو صرف چھریوں کی آواز سنائی دیگی‘ چھری دکھائی نہ دیگی۔ وہ ایک فاضل ایڈووکیٹ ہیں اور قانون کی بھی شدبد رکھتے ہیں‘ کہیں بھی پھٹہ لگاکے بیٹھ جائیں‘ ان پر ہُن برسے گا۔ یوسف گیلانی اقتدار سے روتے ہوئے اور آپ ہنستے ہوئے نکلے پر نکلے دونوں‘ اس لحاظ سے دونوں ہم زلف ہیںاور مناسب نہیں کہ ہنستا ہوا محروم روتے ہوئے محروم کے آنسو اچھالے۔ ہم بابر و یوسف دونوں کی بھلائی کیلئے حافظ شیراز کا یہ تحفہ پیش کرتے ہیں....
آسائش دو گیتی تفسیر ایں دو حرف است
با دوستاں تلطف بادشمناں مدارا
(دو جہاں کی آسائش اسی میں ہے کہ دوستوں سے مہربانی اور دشمنوں سے مدارات کےساتھ پیش آیا جائے)
٭....٭....٭....٭
وٹو‘ شجاعت ملاقات‘ مسلم لیگ ن کا مل کر مقابلہ کرنے پر اتفاق۔
گویا پی پی اتنی کمزور ہو گئی ہے کہ اسے مسلم لیگ ن کا مقابلہ کرنے کیلئے دوسری پارٹیوں کی مدد کی ضرورت ہے اور نون نے تاحال مجوزہ پیپلی دنگل کا سامنا کرنے کیلئے کسی کو مدد کیلئے پکارا ہی نہیں چونکہ دنگل جیتنے کیلئے عقل کی ضرورت نہیں ہوتی اس لئے جاتی عمرہ کے پہلوانوں کے جیتنے کا عین امکان ہے۔ پیپلز پارٹی بھی اندر کھاتے متذبذب ہے کہ آیا وہ بھٹو والی پیپلز پارٹی ہے یا نہیں‘ کیونکہ بھٹو کا پوتا تو اس سے باہر ہے اور زرداری کا فرزند اِن‘ وٹو صاحب اگر وٹہ نہ مارینگے تو شجاعت حسین مٹی ڈالیں گے۔ اس کھیل پر تو ویسے ہی مٹی پڑ جائیگی۔ تختِ لاہور کا نعرہ بھی پیپلز پارٹی کی ایجاد ہے‘ حالانکہ یہ تختہ ہے اور تخت پر دھیان سے چڑھنا چاہیے‘ کہیں نیچے تارا مسیح نہ کھڑا ہو۔ سپریم کورٹ نے تو فیصلہ دیکر گویا توازن پیدا کر دیا ہے کہ اس حمام میں سارے ننگے ہیں‘ اس لئے پروپیگنڈے کا شور سنائی دیگا‘ آگے کوئی نہ بڑھے گا کہ آگے شاملاٹ کھائی ہے کہ کس نے نہیں کھائی؟مرکزی پنجاب اور اس کا دھڑکتا دل لاہور کسی کے ساتھ دھڑکتا ہے‘ اس کا اندازہ دیہی علاقوں میں لگایا جا سکتا ہے کہ وہیں ہماری اکثریتی آبادی قیام پذیر ہے۔ لومڑی کتنی ہی سازشی کیوں نہ ہو‘ شیر کا ایک پنجہ اس کیلئے کافی ہوتا ہے۔
٭....٭....٭....٭
سیکرٹری پانی و بجلی نے کہا ہے‘ اب کسی کو مفت بجلی نہیں ملے گی‘ یکساں لوڈشیڈنگ ہو گی۔
یہی وہ بات ہے جو کوئی وزیر نہیں کہہ سکتا‘ سیکرٹری نے بھی کہا ہو گا تو سیکرٹ ہی کہا ہو گا کیونکہ اکثر سیکرٹری‘ سیکرٹ کام کرتے ہیں مگر یہ جواب ایک سیکرٹری ہی نے سب مفت خوروں کی مفت بجلی بند کرنے کا اعلان کیا ہے تو پھر....
جب بجلی کٹے مفت خوروں کی سب چوروں کی لٹیروں کی
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
سنا تو یہ ہے کہ واپڈا کے عام اہلکاروں کے ہاں بھی روٹیاں ہیٹر پر پکتی ہیں اور ایسی خبر بھی سنی ہے کہ بعض اعلیٰ و ادنیٰ اہلکاروں نے نہ صرف خود بجلی مفت حاصل کر رکھی ہے بلکہ وہ ہمسایوں کو بھی فیض لےکر فیضیاب کرتے ہیں۔ اگر سیکرٹری پانی و بجلی نے یہ مفت بجلی کا کلچر ختم کر دیا تو ممکن ہے لوڈشیڈنگ بھی ختم ہو جائے۔ کئی فیکٹریوں کو مک مکا فارمولے کے تحت بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے‘ اسی لئے سیکرٹری صاحب اگر انکے پاس کوئی دیانتدار اہلکار بچے ہیں تو انکی ایک خفیہ ٹاسک فورس بنائیں جو مفت بجلی خوروں کا سراغ لگا کر ایک فہرست مرتب کریں اور بکرا عید کے بعد قربانی پروگرام شروع کر دیں۔ یہ جتنا جلدی ہو‘ سیکرٹری صاحب کی عاقبت سنور جائےگی۔ کام ہمت اور بہادری کا ہے‘ لیکن سیکرٹری صاحب بھی کہہ دیں کوئی مجھے ہاتھ نہ لگائے بجلی بھری ہے میرے انگ انگ میں‘ اگر وہ خدانخواستہ روک دیئے جائیں تو فہرست میڈیا کو دیدیں تاکہ پتہ چلے کہ یہ بجلی نگوڑی جاتی کہاں کہاںہے کہ روشنی وہاں وہاں ہے۔