تقریب غسل و تبدیلی غلافِ کعبہ

غلاف کعبہ کل جمعرات کے روز تبدیل کیا جا رہا ہے۔ روایتی طور پر غلاف کعبہ ہر سال حج کے دن نو ذلحجہ کو تبدیل کیا جاتاہے جبکہ غسل کعبہ کی تقریب8ذلحجہ کو ادا کی جاتی ہے ۔غلاف کعبہ کی تیاری میں کئی سو کلوگرام خالص ریشم، سونے اور چاندی کا استعمال کیا گیا ہے ۔غلاف کعبہ پر کروڑ ہا ریال لاگت آئی ہے۔ غلاف کعبہ پر بیت اللہ کی حرمت اور حج کی فرضیت اور فضیلت کے بارے میں قرآنی آیات کشیدہ کی گئی ہیں۔اس کا سائز چھ سو ستا و ن مربع میٹر ہے اور یہ کئی حصوں پر مشتمل ہے ۔ زمین سے تین میٹر کی بلندی پر نصب کعبہ کے دروازے کی لمبائی چھ میٹر او رچوڑائی تین میٹر ہے ۔غلاف کعبہ چار دیواروں کے علاوہ دروازے پر بھی آویزاں کیا جاتا ہے۔اتارے جانےوالے غلاف کے ٹکرے بیرونی ممالک سے آئے ہوئے سربراہان مملکت اور دیگر معززین کو بطور تحفہ پیش کر دئیے جاتے ہیں۔
نیا غلاف چڑھانے سے پہلے خانہ کعبہ کو عرق گلاب سے معطر آب زم زم سے غسل دینے کی تقریب ہر سال باقاعدگی سے ادا کی جاتی ہے۔ غسل کے اوقات کا تعین حکومت وقت کرتی ہے۔ اس رسم میں سعودی عرب کے حکام، اسلامی ممالک کے وفود اور ممتاز زائرین شریک ہوتے ہیں۔ غسل کعبہ کے موقع پر روایتی اعتبار سے سب سے پہلے خادم حرمین شریفین (سعودی عرب کے فرما ںروا©) گورنر مکہ کے ساتھ خانہ کعبہ میں داخل ہوتے ہیں۔دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد وہ خانہ کعبہ کے فرش کو عرق گلاب سے معطر آب زم زم سے دھوتے ہیں۔ خانہ کعبہ کی دیواروں کو ایک خاص قسم کی جاروب (جھاڑو) سے دھویا جاتا ہے۔ یہ جھاڑو کجھور کے پتوں سے خصوصی انداز میں بنائی جاتی ہے۔ دھلائی کے عمل کے دوران گورنر مکہ ہر طرف عرق گلاب چھڑکتے رہتے ہیں۔ دھلائی والا پانی خانہ کعبہ کے دروازے کی دہلیزکے سوراخ سے باہر نکلتا رہتا ہے۔دھلائی کا عمل مکمل ہونے کے بعد خانہ کعبہ کی عمارت کے اندر قسم قسم کے بخورات (خوشبوﺅں) کی دھونی دی جاتی ہے۔
کعبہ کا تصور یا نام زبان پر آتے ہی ادب، احترام اور احساس کی ایسی کیفیت ابھرتی ہے کہ جس کا بیان الفاظ میں آسان نہیں۔تجلیات ، عقیدت ،روحانیت اور کیف و سرور کے اثرات سے مزین یہ عمارت بیت اللہ کہلاتی ہے ۔بیت کا مطلب اللہ کا گھر ہے ۔ کعبہ ، اللہ کا گھر اور مسلمانوں کا قبلہ ہے ۔مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام کے تقریباً عین وسط میں کعبة اللہ واقع ہے۔ لغت کے اعتبار ے کعبہ ہر بلند اور مربع عمارت کو کہتے ہیں ۔ یہ نام کعبہ کے مربع شکل ہونے کی وجہ سے پڑ گیا ہے ۔کعبے کی چاروں دیواریں ایک سیاہ پردے یا غلاف سے ڈھکی رہتی ہے۔پورے کعبے کو اس غلاف نے ڈھانپ رکھا ہے۔ کعبے کو غلاف پہنانے کا رواج قدیم ترین زمانے سے چلا آ رہا ہے۔ خانہ کعبہ پر سب سے پہلے غلاف حضرت اسماعیل علیہ السلام نے چڑھایا تھا ابن ہشام اور دیگر مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کعبہ کےساتھ ساتھ غلاف کا اہتمام بھی کیا تھا۔
فتح مکہ کے بعد جب حضور ﷺنے خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کیا تو اس وقت آپ ﷺنے غلاف کعبہ کو تبدیل نہیں کیا تھا انہی دنوں ایک واقعہ پیش آیا ایک مسلمان خاتون غلاف کعبہ کو صندل کی خوش بو میں بسانے کا اہتمام کر رہی تھی کہ اچانک تیز ہوا سے آگ غلاف کعبہ لگ گئی۔اسلامی تاریخ میں پہلی بار حضور اکرم ﷺ نے یمن کا تیار کردہ سیاہ رنگ کا غلاف چڑھانے کا حکم دیا آپ ﷺکے عہد میں دس محرم کو نیا غلاف چڑھایا جاتا تھا بعدمیں یہ غلاف عید الفطر کو اور دوسرا دس محرم کو چڑھایا جانے لگا بعد ازاں حج کے موقع پر غلاف کعبہ چڑھانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ دس ہجری میں آپ ﷺنے حجتہ الوداع فرمایا تو غلاف چڑھایا گیا اس زمانے سے آج تک ملت اسلامیہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ غلاف خوبصورت اور قیمتی کپڑے سے بنا کر اس پر چڑھاتے ہیں حضور اکرم ﷺکے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓنے اپنے دور میں مصری کپڑے کا قباطی غلاف چڑھایا کرتے تھے۔سیدناعمر فاروق ؓ پہلے پرانا غلاف اتار کر زمین میں دفن کر دیا کرتے تھے لیکن بعد میں اسکے ٹکڑوں کو حجاج اور غربا میں تقسیم کر دیا ۔
حضرت عثمان غنی ؓ نے سال میں دو مرتبہ کعبہ پر غلاف چڑھانے کی رسم ڈالی۔خلافت راشدہ کے بعد سے اب تک خانہ کعبہ کا غلاف تواتر سے تبدیل کیا جا رہا ہے۔ 1927ءمیں شاہ عبد العزیز السعود نے اپنے بیٹے شہزادہ فیصل کو حکم دیا کہ وہ غلاف کعبہ کی تیاری کےلئے جلد ازجلد ایک کارخانہ قائم کریں۔ سعودی کارخانے میں تیار ہونےوالا پہلا غلاف ہندوستان کے مسلمان کاریگروں نے تیار کیا۔ مکہ میں غلاف کعبہ کیلئے اس فیکٹری ”دارالکسوہ “ کے نام سے قائم کی گئی ۔ 1962ءمیں غلاف کی تیاری کی سعادت پاکستان کے حصے میں بھی آئی۔شاہ فہد کے زمانے میں 18جنوری1983کو اقوام متحدہ کی مرکزی عمارت میں رکھنے کیلئے ملت اسلامیہ کی جانب سے غلاف کعبہ کا پردہ عطیہ کے طور پر پیش گیا۔ یہ پردہ نیو یارک میں اقوام متحدہ کی مرکزی عمارت کے استقبالیہ میں نمایاں طور پر آویزاں کیا گیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن