جمعرات ‘ 18 ذی الحج 1434ھ ‘ 24 اکتوبر2013ئ

غیر موثر اور بے اختیار وزارتی قلمدان تین روز میں واپس کر دوں گا : عطا محمد مانیکا !
اب معلوم نہیں مانیکا صاحب نے یہ دھمکی دی ہے یا وزارت میں تبدیلی کی درخواست کی ہے کیونکہ ان کے واقفانِ حال جانتے ہیں مانیکا صاحب تو ڈال ڈال کے پنچھی ہیں کبھی یہاں اور کبھی وہاں ان کا آنا جانا لگا رہتا ہے البتہ ہم یہ ضرور کہیں گے کہ وہ قلمدان ضرور واپس کر دیں مگر وزارت نہیں چھوڑیں کیونکہ انکی ساری ”شوبھا“ تو اسی وزارت کے دم قدم سے ہے ان کا مسلم لیگ (ن) میں شمولیت تک کا سفر بھی اسی مقصد کے تحت تھا اب اگر وزارت نہ ہو تو پھر یہ کوچہ گردی اور دشت نوردی کس کام کی، یہ نہ ہو تو کون پوچھے گا انہیں۔ وزارت نہ ہو تو سیاست کا مزہ کیا، ویسے مانیکا صاحب وزارت سماجی بہبود کے تو نام ہی ظاہر ہے کہ براہ راست عوام کی خدمت کا شعبہ ہے تو پھر آپ کی اس سے بے اعتنائی کیوں ؟ اگر بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے نئی حلقہ بندیوں کا ”سیاپا“ درمیان میں آ جانے سے ان کی دل شکنی ہوئی ہے تو پریشان ہونے والی کوئی بات نہیں، اس سے پہلے بھی تو اسمبلیوں میں اپنی بات منوانے کیلئے عوام کی پُرخلوص اور براہ راست خدمت کیلئے فارورڈ بلاک بنائے جاتے رہے اس مرتبہ بھی ”اک گناہ اور سہی“ میں کیا مضائقہ، کئی اور وزارتوں کے مارے دل جلے بھی تیار بیٹھے ہیں، خود بخود ٹیم بن جائے گی اور پھر ”موجاں ای موجاں“ من پسند وزارت اور مشاورت کے علاوہ خصوصی نوازشات کی بارش علیحدہ ہو گی۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
ہڈیارہ میں جواں سال لڑکی سے اجتماعی زیادتی، شاہدرہ میں استاد کی 7 سالہ طالبہ سے بدسلوکی !
یہ ہے ہمارے معاشرے کے چہرہ کا وہ ناسُور جسے ہم لاکھ چھپانا چاہیں چھپا نہیں سکتے۔ بے شک ایسے واقعات کی تعداد یا شرح کم ہے مگر جس تواتر کے ساتھ یہ پیش آ رہے ہیں وہ ہمارے معاشرے کی بے راہ روی اور تنزلی کی عمیق گہرائیوں اور پستیوں میں گرنے کی دلیل ہیں ....
ہر تیرگی میں تُو نے اتاری ہے روشنی
اب خود اُتر کے آ کہ سیاہ تر ہے کائنات
اس قدر وحشیانہ اور سنگدلانہ افعال سرزد ہونے کے باوجود اگر ملزم آزاد پھر رہے ہیں اور قانون کی گرفت میں نہیں آ رہے تو پھر ہمیں قاضی ازل کے کسی فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے جو بڑا سخت ہو گا۔ اگر ہمیں اس سخت عذاب سے محفوظ رہنا ہے تو پھر ہمیں ایسے تمام مجرموں کو جنہوں نے ایسا سفاکانہ جرم کیا ہے کیفر کردار تک پہنچانا ہو گا، عبرت کا نمونہ بنانا ہو گا تاکہ دوبارہ کسی کو ایسا کرنے کی جرا¿ت نہ ہو۔ ہمیں اس بُرائی کے خلاف سارے معاشرے کو عملی اور علمی طور پر بیدار کرنا ہو گا تاکہ ہمارے نوجوان بچے اور بچیاں غلط کاریوں سے اور غلط افراد کے ہاتھوں میں جانے سے محفوظ رہیں۔
پی آئی اے کو اونے پونے داموں فروخت کیا جا رہا ہے، نام دیواروں پر لکھے ہیں : چیف جسٹس !
یہ بات پورا ملک جانتا ہے کہ کس طرح ایک قومی ادارے کو جان بوجھ کر پہلے تو نااہل اور سفارشی ٹیکنیکل و نان ٹیکنیکل عملے کی دھڑا دھڑ بھرتی کر کے مالی طور پر تباہی کی طرف دھکیلا گیا پھر اس کے پرواز والے پُرکشش روٹ دوسری ائر لائنوں کو مناسب اور معقول ”کمیشن“ کے عوض فروخت کئے گئے اور اسی پر بس نہیں ہوا بیرون پی آئی اے کے قیمتی ہوٹل اور کمرشل پراپرٹی اونے پونے داموں فروخت ہوئی سب چپ رہے کوئی نہ بولا کیونکہ سب کی جیب گرم تھی۔
گذشتہ کئی برسوں سے کسی کو اس ادارے کی ساکھ بحال کرنے کا خیال تک نہیں آیا۔ پرانے بوسیدہ طیارے بدلنے کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا، کسی نے اس کی اُجڑی مانگ کو سنوارنے تک کی کوشش نہیں کی۔ اس کی سروس جو کبھی باکمال تھی اب زوال کی منزل پر پہنچ چکی ہے۔ پروازوں میں تاخیر، کرایوں میں اضافہ، عملے کی بدتمیزیاں، سہولتوں کے فقدان کے جواب میں کوئی ایک خوبی ہی گنوا دے۔ یہ سب کچھ ہمارے حکمرانوں کی کرپشن اور چہیتوں کو نوازنے کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے اور اب اس ادارے کی تجہیز و تکفین کا بندوبست ہو رہا ہے تو ہماری عدالت عالیہ سے یہی درخواست ہے کہ وہ اس ادارے کے قاتلوں کو بے نقاب کر کے تختہ دار تک پہنچائے اور اس کو متاع بازار بننے سے روکے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
زرداری کپتان بدلیں، فنکشنل لیگ سندھ کا مطالبہ !
بھلا زرداری صاحب کو کیا پڑی ہے کہ وہ دوسروں کے واویلے پر اپنی ٹیم میں تبدیلیاں کرتے پھریں، یہ سب کھلاڑی زرداری صاحب کے آزمائے ہوئے ہیں تبھی تو پوری قوم کے شور پر احتجاج پر بھی انہوں نے 2013ءکے الیکشن میچ میں اپنی اس ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے مگر کیا مجال ہے کہ کسی کھلاڑی نے یا خود زرداری صاحب نے کوئی شکوہ لب پر لایا ہو، سب نے زرداری صاحب کی ہر ادا پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے ....
یہ ہَوا یہ رات یہ چاندنی
تیری اک ادا پہ نثار ہے
کی عملی تفسیر پیش کی۔ اب بھلا کوئی عقل کا اندھا ہی ہو گا جو ایسی پُرخلوص اور باوفا ٹیم کے کسی کھلاڑی کو نکالے۔ کپتان صاحب کی تو بات ہی نرالی ہے وہ تو اتنے عظیم ہیں کہ انہوں نے کپتان ہوتے ہوئے بھی اپنے تمام حقیقی و نمائشی اختیارات بھی ”منہ بولے وزیر اعلیٰ“ کے سپرد کر رکھے ہیں جو نہایت دھوم دھڑکے کے ساتھ انہیں اختیار کر رہے ہیں۔ کہیں فنکشنل لیگ کا اشارہ بھی اسی طرف تو نہیں کہ اب زرداری صاحب سندھ میں جعلی وزیر اعلیٰ کو ہی مسند پر بٹھائیں۔

ای پیپر دی نیشن