ایک خبر کے مطابق،قومی اسمبلی میں واحد نشست کے حامل ، پاکستان عوامی مسلم لیگ کے صدر ،شیخ رشید احمد نے ،قومی اسمبلی میں ۔اپوزیشن لیڈر بننے کی عملی کوششوں کا آغاز کر دیا ہے ۔ اِس وقت قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ( پی ۔پی۔پی۔پی) کے سیّد خورشید شاہ اپوزیشن لیڈر۔ ہیں ۔ خبر کے مطابق شیخ احمد رشید نے اپنے حلیف ، عمران خان سے مُلاقات کر کے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ ” سیّد خورشید شاہ ،قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا ” مﺅثر کردار “ ادا نہیں کر رہے“۔ خبر کے مطابق ” عمران خان نے شیخ صاحب سے کہا کہ ” آپ پہلے دوسری اپوزیشن جماعتوں کو راضی کر لیں تو، تحریکِ انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اس تجویز پر غور کریں گے “۔یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ” شیخ رشید احمد اپوزیشن لیڈر بننے کی تجویز پر جماعتِ اسلامی اور ایم کیو ایم کے بعض لیڈروں سے رابطہ کر چکے ہیں “۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بننے کے لئے بڑے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔مُجھے نہیں معلوم کہ شیخ صاحب کو پاپڑ بیلنے کا تجربہ ہے یا نہیں؟۔
2002ءکے عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں دوسری اکثریتی پارٹی تھی لیکن سپیکر چودھری امیر حسین نے جمعیت عُلماءاسلام کے امیر مولانا فضل الرحمٰن کو اپوزیشن لیڈر مقرر کر دیا تھا ۔ اُس دَور کے وزیرِ قانون ڈاکٹر شیر افگن نے قومی اسمبلی کے ایوان میں کہا تھا کہ ” مولانا فضل الرحمٰن کو اِس لئے اپوزیشن لیڈر نامزد کِیا گیا تھا کہ وہ صدر جنرل پرویز مشرف کی پالیسیﺅں کی حمایت کریں گے“۔ مولانا فضل الرحمٰن نے،اِس بیان کا کوئی نوٹس ہی نہیں لِیا تھا ۔ قومی ا سمبلی میں اپوزیشن لیڈر کو بہت سی مراعات حاصل ہوتی ہیں ،خواہ وہ ایوان میں ” م¶ثر کردار“ ادا کرے یا نہ کرے ؟۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ شیخ رشید احمد ،ہر شام کسی نہ کسی نیوز چینل پر ” اپوزیشن لیڈر کا م¶ثر کردار“ ادا کر رہے ہوتے ہیں لیکن، ”کون سُنتا ہے ، دُہائی میری ؟“ شیخ رشید احمد اپنی ذات میں ۔ ”ا نجمن“۔ ہیں ،لیکن وہ علّامہ اقبالؒ کی طرح یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ۔۔۔
” گیا دَور ، تنہا تھا مَیں انجمن میں !
یہاں اب میرے راز داں اور بھی ہیں “
شیخ رشید احمد ،وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات تھے جب مجھے ستمبر1991ءمیں اُن کے ساتھ عوامی جمہوریہ چین کے دورے پر جانے کا اتفاق ہُوا۔ ارشاد احمد حقانی مرحوم اور مشاہد حسین سیّد سمیت وفد میں کُل 11سینئر صحافی شامل تھے ۔بیجنگ میں ایک مسئلہ پر میری شیخ صاحب سے تلخی ہو گئی اورپھر کُٹّی بھی کرنا خُدا کا یہ ہُوا کہ شیخ صاحب کے P.R.O نے میرے تین کا لموں کو شیخ صاحب کے بیانات کی شکل دے کر قومی اخبارات میں چھپوا لیا اس پر ” کالم نویس کا استحقاق “ کے عنوان سے میرا کالم 11فروری 1992ءکے ” نوائے وقت“ میں شائع ہُوا ۔ مَیں نے لِکھا کہ وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات شیخ رشید احمد نے ،میرے کالموں کا سرقہ کر کے میرا استحقاق مجروح کر دِیا ہے ۔کیا قومی اسمبلی میں ہے کوئی اللہ کا نیک بندہ! جو ایوان میں، ایک غریب کالم نویس کو، اِس کا استحقاق دِلوانے کے لئے تحریکِ استحقاق پیش کرے؟۔ اُسی روز مسیحی لیڈر جناب جے سالک اور پیپلز پارٹی کے بیرسٹر اعتزاز احسن نے ایوان میں ” نوائے وقت“ کا شمارہ لہرا دِیا لیکن فوراً ہی کسی دُوسرے مسئلے پر، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ارکان گُتھم گُتھّا ہو گئے اور میرے استحقاق کا مسئلہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔
1993ءکے عام انتخابات کے بعد، محترمہ بے نظیر بھٹو وزیرِاعظم منتخب ہُو ئیں تو شیخ رشید احمد نے اُن کے خلاف ایک جلسہءعام میں ” زبان و بیان کے جوہر“ کچھ زیادہ ہی دکھا دیئے شیخ صاحب کے گھر سے بغیر لائیسنس کلاشنکوف برآمد کر کے اُنہیں گرفتار کر لیا گیا۔ مرحوم جنرل ضیاءالحق کے صاحبزادے جناب اعجاز اُلحق نے شیخ صاحب کی لال حویلی کے باہر جلسہءعام سے خطاب کرتے ہُوئے کلاشنکوف لہراتے ہوئے کہا کہ ” میرے پاس بھی لائیسنس کے بغیر کلاشنکوف ہے۔ حکومت میں جُرات ہے تو مجھے گرفتار کر کے دکھائے“ اور جب گرفتاری کا وقت آگیا تو جناب اعجاز اُلحق نے بیان دیا کہ مَیں نے جلسہ ءعام میں جو کلاشنکوف لہرائی تھی وہ ” کھلونا کلاشنکوف “ تھی جو اکثر بچے لہراتے ہیں“۔شیخ رشید احمد کو 5سال قید با مشقت کی سزا دے کر بہاولپور جیل بھیج دِیا گیا ۔ اُن دِنوں ڈیلی۔” دی نیوز“ راولپنڈ ی کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر۔ (آج کل ۔ محترم مجید نظامی کے ” ڈیلی ۔” دی نیشن“ کے ایڈیٹر )برادرِ عزیز سیّد سلیم بُخاری نے اپنا اثر ورسوخ استعمال کر کے شیخ رشید احمد کو رہا کرا لیا اُس سے قبل سلیم بخاری نے اسلام آباد میں میرے گھر ” دھرنا دے کر“ شیخ صاحب کی جُراتءمندی کی تعریف میں مُجھ سے کالم بھی لِکھوایا ۔
2002ءکے عام انتخابات سے قبل مَیں ٹیلی فون کر کے شیخ صاحب کی لال حویلی پہنچا اوراپنے ایک ہفتہ روزہ میں، اُن کا دوستانہ انٹرویو بھی شائع کِیا۔ اُس کے بعد اُن سے میری بالمشافہ یا ٹیلی فون پرکبھی مُلاقات نہیں ہوئی ۔دراصل اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی مُلاقاتوں کا کوٹہ مقرر کِیا ہوتا ہے ۔ کون کِس سے اور کب مُلاقات کرے گا ؟۔ اس کا تو ملا قاتیوں کو بھی عِلم نہیں ہو تا۔ابھی میرے سر کے بال ایک تہائی ہی جھڑے تھے کہ مَیں نے 1991ءمیں ۔” دُنیا بھر کے گنجو متحد ہو جاﺅ!“۔ کے عنوان سے کالم لِکھا ،لیکن میرے شناساﺅں شیخ رشید احمد (امریکہ میں سابق سفیرِ پاکستان)۔ حسین حقانی اور (” مُون ڈائجسٹ “ کے ایڈیٹر)۔ادیب جاودانی نے اپنا اپنا ”گنجِ گرامایہ“۔ چھپانے کے لئے ۔"Wig"۔ (وِگ) اوڑھنا /پہننا شروع کر دی اور اِس طرح گنجوں کو متحد کرنے کی میری عالمی تحریک ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی”تحریکِ خلافت“کی طرح شروع میں ہی ناکام ہو گئی۔
شیخ رشید احمد ”رِند“ ہیں یا نہیں؟ مَیں نہیں جانتا، لیکن مَیںاُن کی ” جُراتِ رندانہ“ کا قائل ہوں۔ وہ موروثی سیاست کے خلاف ہیںاور سیاست اور عائلی زندگی میں ” اِک تارا“ بجانے پر یقین رکھتے ہیں۔ شاید اِسی لئے شادی ہی نہیں کی۔ اِس لئے کم از کم، قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنائے جانے کی حد تک تو، اُن پر اعتماد کِیا جا سکتا ہے ۔کِس کو صدر یا وزیرِاعظم بنایا جائے؟ اِس طرح کا حُکم کئی بار قصرِ سفید “ سے آتارہا ہے اور اُس پر عمل بھی ہوتا رہا ہے ،لیکن کس کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنایا جائے ؟۔اِس طرح کا حُکم شایدابھی تک نہیں آیا۔ بہر حال،مَیں شیخ رشید احمد کی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بننے کی ”آرزُو“ کی حمایت کرتا ہُوں۔ مَیں شیخ صاحب سے یہ تو نہیں کہوں گا کہ ۔۔۔۔
” خُدا کرے کہ تیری ، آرزُو بدل جائے !“
البتہ اُن کی خدمت میں آرزُو سے متعلق جناب فیض احمد فیض کا یہ شعر ضرور عرض کروں گا کہ ۔۔۔
” یہ آرزُو بھی بڑی چیز ہے ،مگر ہَمدم
وصالِ یار فقط آرزُو کی بات نہیں!“
شیخ رشید احمد ۔” اپوزیشن لیڈر؟“
Oct 24, 2013